بنیاد کا پتھر
نوجوان بہت دکھی تھا‘ اس کے ہاتھ میں کپ لرز رہا تھا‘ وہ بار بار کھنگار کر گلا صاف کرتا تھا اور ٹشو سے آنکھیں پونچھتا تھا لیکن اس کا اضطرار کم نہیں ہو رہا تھا‘ وہ اندر ہی اندر ہلکی لیکن مسلسل آنچ پر پک رہا تھا‘ اس کی توہین ہوئی تھی‘ اس کی انا‘ اس کی عزت نفس کچلی گئی تھی اور اسے اپنی انا کی ٹوٹی کرچیاں سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھیں‘ بات بہت معمولی تھی لیکن اس کی غربت‘اس کی بے بسی نے اس معمولی سی بات کو بڑا بنا دیا تھا‘غربت محدب عدسہ ہوتی ہے‘
یہ غم اور خوشی کا سائز ہمیشہ بڑھا دیتی ہے‘ ایک امیر آدمی جس خوشی کو معمولی سمجھ کر دھتکار دیتا ہے وہ خوشی جب کسی غریب شخص تک پہنچتی ہے تو اسے راترات بھر نیند نہیں آتی‘ اسی طرح جس غم‘ جس دکھ کو بڑا شخص معمولی سمجھ لیتا ہے وہ دکھ غریب شخص کو اندرسے کھا جاتا ہے‘ اس نوجوان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا‘ وہ کسی امیر گھر میں ٹیوشن پڑھاتا تھا‘ وہ موٹر سائیکل پر وہاں جاتا تھا‘ ایک شام اس گھر میں پارٹی تھی‘ پورچ اور ڈرائیو وے پر درجنوں قیمتی گاڑیاں کھڑی تھیں‘ ان لمبی ‘ بڑی اور چمکیلی گاڑیوں کے درمیان اس کی موٹر سائیکل چاند کا داغ محسوس ہورہی تھی‘ وہ باہر نکلا تو صاحبوں اور میم صاحبوں نے اس کی موٹر سائیکل کا مذاق اڑانا شروع کردیا‘ وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن موٹر سائیکل نے عین وقت پر سٹارٹ ہونے سے انکار کردیا‘ وہ وہاں دیر تک موٹر سائیکل کو ککیں لگاتا اور میم صاحبوں اور صاحبوں کے قہقہے سنتا رہا‘ یہ قہقہے اس کے اندر اتر گئے‘ وہ میرے پاس آیا اور سامنے بیٹھ کر رونا شروع کردیا۔ میں نے اس سے کہا ’’ میرے بھائی یہ توہین‘ یہ انا کی کچلی ہڈیاں اور عزت نفس کی یہ کرچیاں بہت قیمتی ہوتی ہیں‘ یہ وہ بنیاد ہوتی ہیں جن پر دنیا کی بڑی بڑی شخصیات کی ذات تعمیر ہوتی ہے ‘ جس پر عظیم لوگوں کی عظمت کے مینار اور کامیاب لوگوں کی کامیابی کے گنبد بنتے ہیں‘ تم اگر اس احساس ندامت کو سنبھال سکو تو سنبھال لو‘
تم اس عظیم لمحے کو پکڑ سکو تو پکڑ لو یہ تمہیں کامیابی اور عزت سے نوازے گا‘ تم بھی چند ہی برسوں میں صاحب ہو جائو گے‘‘ اس نے آنکھیں پونچھیں اور حیرت سے مجھے دیکھنے لگا‘ میں نے کہا ’’ میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں‘ تم سنو اور پھر بتائو‘ تمہار احساس توہین کتنا قیمتی ہے‘‘اس نے ہاتھوں کی پشت سے اپنے آنسو صاف کئے اور خاموشی سے میری بات سننے لگا‘ میں نے عرض کیا ’’ پولینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک غریب لڑکی رہتی تھی‘ اس کا نام مانیا سکلوڈو وسکا تھا‘
وہ بھی تمہاری طرح ٹیوشن پڑھا کر گزر بسر کرتی تھی‘19 برس کی عمر میں وہ ایک امیر خاندان کی دس سال کی بچی کو پڑھاتی تھی‘ بچی کا بڑا بھائی اس میں دلچسپی لینے لگا‘ وہ بھی اس کی طرف مائل ہوگئی چنانچہ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جب لڑکے کی ماں کو پتہ چلا تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ اس نے مانیا کو کان سے پکڑا اور پورچ میں لا کھڑا کیا‘اس نے آواز دے کر سارے نوکر جمع کئے اور چلا کر کہا ‘ دیکھو یہ لڑکی جس کے پاس پہننے کیلئے صرف ایک فراک ہے‘
جس کے جوتوں کے تلوئوں میں سوراخ ہیں اور جسے 24 گھنٹے میں صرف ایک بار اچھا کھانا نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی ہمارے گھر سے‘ یہ لڑکی میرے بیٹے کی بیوی بننا چاہتی ہے‘ یہ میری بہو کہلانے کی خواہش پال رہی ہے‘‘ تمام نوکروں نے قہقہہ لگایا اور خاتون دروازہ بند کر کے اندر چلی گئی‘ مانیا کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے اوپر تیزاب کی بالٹی الٹ دی ہو‘ وہ توہین کے شدید احساس میں گرفتار ہوگئی اور اس نے اسی پورچ میں کھڑے کھڑے فیصلہ کیا وہ زندگی میں اتنی عزت‘ اتنی شہرت کمائے گی
کہ پورا پولینڈ اس کے نام سے پہچانا جائے گا‘‘میں دم لینے کیلئے رکا‘ نوجوان میری بات سنتا رہا‘ میں نے عرض کیا ’’ یہ 1891ء تھا‘ وہ پولینڈ سے پیرس آئی‘ اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فزکس پڑھنا شروع کردی‘ وہ دن میں 20 گھنٹے پڑھتی تھی‘ اس کے پاس پیسہ دھیلا تھا نہیں جو کچھ جمع پونجی تھی وہ اسی میں گزر بسر کرتی تھی‘ وہ روز صرف ایک شلنگ خرچ کرتی تھی‘ اس کے کمرے میں بجلی‘ گیس اور کوئلوں کی انگیٹھی تک نہیں تھی‘ وہ برفیلے موسموں کی راتیں کپکپا کر گزارتی تھی‘
جب سردی برداشت سے باہر ہو جاتی تھی تو وہ اپنے سارے کپڑے نکالتی تھی‘ آدھے بستر پر بچھاتی تھی اور آدھے اوپر اوڑھ کر لیٹ جاتی تھی‘ پھر بھی گزارہ نہ ہوتا تو وہ اپنی ساری کتابیں حتیٰ کہ اپنی کرسی تک اپنے اوپر گرا لیتی تھی‘ پورے پانچ برس اس نے ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں اور مکھن کے سوا کچھ نہ کھایا‘ نقاہت کا یہ عالم ہوتا تھا وہ بستر پر بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو جاتی تھی لیکن جب ہوش آتا تھا تو وہ اپنی بے ہوشی کو نیند قرار دے کر خود کو تسلی دے لیتی تھی‘ وہ ایک روز کلاس میں بے ہوش ہوگئی‘ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد کہا‘ آپ کو دواء کی بجائے دودھ کے ایک گلاس کی ضرورت ہے‘ اس نے یونیورسٹی ہی میں پائری نام کے ایک سائنس دان سے شادی کر لی تھی‘
وہ سائنس دان بھی اسی کی طرح مفلوک الحال تھا‘ شادی کے وقت دونوں کا کل اثاثہ دو سائیکل تھے‘ وہ غربت کے اسی عالم کے دوران پی ایچ ڈی تک پہنچ گئی‘ مانیا نے پی ایچ ڈی کیلئے بڑا دلچسپ موضوع چنا تھا‘ اس نے فیصلہ کیا وہ دنیا کو بتائے گی یورینیم سے روشنی کیوں نکلتی ہے‘ یہ ایک مشکل بلکہ ناممکن کام تھا لیکن وہ اس پر جت گئی‘ تجربات کے دوران اس نے ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا جو یورینیم کے مقابلے میں 20 لاکھ گنا روشنی پیدا کرتا ہے اور اس کی شعاعیں لکڑی‘ پتھر‘ تانبے
اور لوہے غرض دنیا کی ہر چیز سے گزر جاتی ہیں‘ اس نے اس کا نام ریڈیم رکھا‘ یہ سائنس میں ایک بہت بڑا دھماکہ تھا‘ لوگوں نے ریڈیم کا ثبوت مانگا‘ مانیا اور پائری نے ایک خستہ حال احاطہ لیا جس کی چھت سلامت تھی اور نہ ہی فرش اور وہ چار برس تک اس احاطے میں لوہا پگھلاتے رہے‘ انہوں نے تن و تنہا 8 ٹن لوہا پگھلایا اور اس میں سے مٹر کے دانے کے برابر ریڈیم حاصل کی‘ یہ چار سال ان لوگوں نے گرمیاں ہوں یا سردیاں اپنے اپنے جسموں پر جھیلیں‘ بھٹی کے زہریلے دھوئیں نے مانیا کے پھیپھڑوں میں سوراخ کر دیئے لیکن وہ کام میں جتی رہی‘ اس نے ہار نہ مانی یہاں تک کہ پوری سائنس اس کے قدموں میں جھک گئی‘‘۔
نوجوان بڑے غور سے میری بات سن رہا تھا‘ میں نے کہا ’’ یہ ریڈیم کینسر کے لاکھوں کروڑوں مریضوں کیلئے زندگی کا پیغام لے کر آئی‘ہم آج جسے شعائوں کا علاج کہتے ہیں یہ مانیا ہی کی ایجاد تھی‘اگر وہ لڑکی چار سال تک لوہا نہ پگھلاتی تو آج کیسنر کے تمام مریض مر جاتے‘ یہ لڑکی دنیا کی واحد سائنس دان تھی جسے زندگی میں دوبار نوبل پرائز ملا‘ جس کی زندگی پر 30 فلمیں اور سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں اور جس کی وجہ سے آج سائنس کے طالب علم پولینڈ کا نام آنے پر سر سے ٹوپی اتار دیتے ہیں‘‘
میں ایک لمحے کیلئے رکا اور اس نوجوان سے پوچھا ’’ تم اس مانیا کا پورا نام جانتے ہو‘‘ نوجوان نے انکار میں سرہلا دیا‘ میں نے قہقہہ لگایا ’’میرے عزیز دنیا پولینڈ کی اس مفلوک الحال‘ اس بے بس اور بے کس لڑکی کو مادام کیوری کے نام سے جانتی ہے‘‘ نوجوان کی آنکھوں میں روشنی اتر آئی‘ میں نے کہا ’’ لیکن ابھی اس کہانی کا کلائمکس باقی ہے‘ جب دنیا نے مادام کیوری کو اس ایجاد کے بدلے اربوں ڈالر کی پیش کش کی تو اس نے پتہ ہے کیا کہا؟ اس نے کہا‘ میں یہ دریافت صرف اس کمپنی کو دوں گی جو پولینڈ کی ایک بوڑھی عورت کا مفت علاج کرے گی‘ جی ہاں! وہ امیر پولش عورت جس نے کبھی کیوری کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا تھا ‘
وہ اس وقت کینسر کے مرض میں مبتلا ہو چکی تھی اور وہ اس وقت بستر مرگ پر پڑی تھی‘‘ میں رکا اور پھر نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’ میرے بھائی اس دنیا میں روزانہ کروڑوں‘ اربوں لوگوں کی توہین ہوتی ہے‘ کروڑوں‘ اربوں لوگ ایک دوسرے کی انا‘ عزت نفس اور وقار کو قدموں میں روندتے ہیں لیکن توہین کا وہ احساس جو 3 پونڈ ماہانہ کی ایک ٹیوٹر کو مادام کیوری بنا دے وہ احساس اللہ تعالیٰ کسی کسی کو نصیب کرتا ہے‘ یہ احساس دنیا کی قیمتی ترین چیز ہے‘
جائو شکرانے کے دو نفل پڑھو اور اللہ کے بخشے اس لمحے کو کامیابی میں ڈھال دو‘ اسے زندگی بنا لو‘ یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کسی سے راضی ہوتا ہے تو وہ اسے دولت سے نہیں نوازتا وہ اسے ادراک دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس ادراک سے نوازہ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مادام کیوری جیسا احساس بخشا ہے‘ اب یہ تم پر ہے تم اس سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہو‘ تم بنیاد کے اس پتھر پر اونچی عمارت بناتے ہو یا پھر اسے رونے دھونے میں ضائع کر دیتے ہو‘
Leave a Reply