کسی بستی میں ایک عورت بڑی صالح عبادت گزارہر وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہتی تھی
کسی بستی میں ایک عورت بڑی صالح عبادت گزار ہر وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہتی تھی اللہ کی قدرت کہ اس کا نیک خداترس شوہر وفات پا گیا ۔ اس کا ایک ہی لڑ کا تھا ۔ اس نیک دل عورت نے اس لڑ کے کی بڑی اچھی طرح پرورش کی ۔بہت اچھے سے پا لا۔ تعلیم بھی اچھی دلا ئی ۔ لڑ کے نے جب دنیا کے میدان میں قدم رکھا تو ہر طرف اس کے حسنِ سلوک کے چرچے ہو نے لگے۔
شریف لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ۔ بیوہ عورتیں اس کو دعائیں دیتیں۔ وہ غریبوں سے ہمدردی کرتا۔ خیرات صدقات دیتا غرض اس کی بستی میں کوئی ایسا فرد نہ تھا جو اس سے خوش نہ تھا۔ اس کی بستی والے ایسے نیک لوگ تھے کہ ہر گھر سے قرآن ِ پاک کی تلاوت کی آواز آ تی تھی۔ مساجد میں درس قرآن اور اللہ کے ذکر کی مجلس ہوتی تھی۔ غرض اس بستی کا ہر گھر جنت کا نمو نہ تھا۔ یہ لڑ کا دیہات سے باہر شہر میں آ نے جانے لگا۔ کچھ بے حیائی عورتوں پر اس کی نظریں پڑ نے لگیں اورآہستہ آہستہ اس کی دوستی نیکوں سے ہٹ بدوں سے بڑ ھنے لگی پھر وہ راستہ سے بھٹک گیا بدکردار دوستوں کے مشورے سے اس نے والد ہ کے کھیت دیہات کی پر سکون زندگی کو خیر آباد کہہ کر شہر کی فضا میں اپنا ڈ یرہ ڈال لیا اور اس کے ڈیرے میں اب ہر قسم کے اوباش دوست اس کے گرد جمع ہونے لگے۔
ان بدکردار دوستوں نے اسے راہِ حق سے ہٹا دیا ماں مصلے پر بیٹھی ہر وقت اس کے لیے دعا ئیں کرتی رہتی کبھی کبھی ماں سے ملنے شہر سے گاؤں چلا جاتا آہستہ آہستہ وہ وقت آیا کہ مہینہ میں ایک چکر لگا تا اسی اثناء میں اس کے بد کردار دوستوں کے ذریعے اس کی دوستی ایک بد کردار عورت سے ہو گئی اور وہ اس کا اس قدر دیوا نہ ہوا کہ اپنے باپ کے جائیداد فروخت کر کے اس پر لوٹا تا رہا آخر وہ وقت آیا کہ وہ عورت جس نے اپنے نیک دل شو ہر کی زندگی میں کبھی کوئی دکھ نہیں دیکھا تھا ۔ اب دوسروں کے گھر مزدوری کر نے لگی بیٹا جب کبھی گاؤں آ تا تو ماں مزدوری کے پیسوں سے بیٹے و گھی لے کر دیتی کوئی چیز بنا دیتی اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتی کافی عرصہ گزر گیا لڑکا ماں کو ملنے نہ آ یا ماں بیٹے کی جدائی اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھی جب بھی کو ئی غیر اس کے دروازے کو کھٹکھٹاتا تو وہ دوڑ کر دروازہ پر جاتی بے ساختہ کہتی میرے بیٹے تم آ گئے بیٹے تم نے اتنی دیر کیو ں لگائی جب معلوم ہوتا کہ گلی کے کسی بچے نے دروازہ کھٹکھٹا یا تو دل پر ہاتھ رکھ کر پھر مصلے پر آ بیٹھتی اور رونا شروع کر دیتی۔ روتے روتے اس نیک دل کی بینائی بھی جواب دے گئی تھی اور پھر جب اس لڑ کے کے پاس کچھ نہ رہا تو اس عورت نے اپنے یاروں سے مشورہ کیا کہ اب اس جان چھڑائی جائے مشورے میں یہ طے ہوا کہ اس سے یہ فر ما ئش کی جائے میرے محبت جب بھی آپ سے رہے گی کہ اپنی ماں کا دل نکال کر لاؤ اس طرح وہ فرمائش پوری نہیں کرے گا اور خود ہی جان چھوٹ جائے گی۔
اس بد کردار عورت نے یہی فرما ئش کی وہ انسان جو ایک وقت میں فرشتہ تھا آج خواہشِ نفس کی خاطر شیطان سے بھی بدتر ہوگیا اور اس فرمائش کو بھی پورا کرنے تک تیار ہو گیا ۔ خنجر لیا گاؤں کی طرف چل دیا عرصہ دراز کے بعد جب یہ بد نصیب دروازے پر پہنچا آواز دی ماں خوشی سے دروازے کی طرف بڑ ھی ۔ منہ سر چو ما اور سینہ سے لگا یااس بد بخت نےخنجر نکا لا اور ماں کے سینے پر مارا ماں کا دل نکا ل کر چل دیا آ سمان پر اندھیرا چھا گیا اللہ کا عرش ہل گیا فرشتو ں نے دعائیں دیں ظلم نے انتہا ہو گئی بد کر داروں کا یار بد کار عورتوں کے مکان پر پہنچا تو ماں کادل اس کے سامنے کیا اس عورت نے کہا تو اپنی ماں پر ایسا ظلم کر سکتا ہے تو معلوم نہیں میرے ساتھ کیا سلوک کرے اس لیے یہاں سے نکل جا آ نکھوں پر اندھیرا چھا گیا اور گر گیا اور مر گیا ماں کا دل ہاتھ سے چھٹا دل اس بد کردار عورت کے کمرے میں پڑی چھری پر پڑا ماں کادل پھٹا درد سے دل سے نکلی یہ صدا۔ بیٹا کہیں چوٹ تو نہیں لگی حضرت موسیؑ نے ایک دفعہ اللہ سے پوچھا کہ جنت میں میرے ساتھ کون ہوگا؟ ارشاد ہوا۔ فلاں قصاب ہوا۔ اور اس قصاب کی تلاس میں چل پڑے وہاں دیکھا تو ایک قصاب اپنی دوکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا ایک کپڑ ے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ حضرت موسی ؑ نے اس قصائی کے گھر کے بارے مزید کچھ جاننے کے لیے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی گھر پہنچ کر کسائی نے گوشت کو پکا یا اور روٹی پکا کر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کیے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا
جہاں ایک نہا یت کمزور بڑ ھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی قصاب نے با مشکل اسے سہارا دے کر اٹھا یا اور ایک ایک لقمہ اس کے منہ میں دیتا رہا جب اس نے کھا نا ختم کیا تو بڑ ھیا کا منہ صاف کیا بڑ ھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر قصائی مسکر ایا اور بڑ ھیا کو واپس لیٹا کر با ہر آ گیا حضرت موسیؑ نے جو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تو مسکرا دیا قصاب بو لا اے اجنبی ! میری ماں ہے گھر پر آ نے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں یہ روز خوش ہو کر مجھے دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے جنت میں حضرت موسیؑ کے ساتھ رکھے جس پر میں مسکرا دیتا ہوں بھلا میں کہاں اور موسی کلیم اللہ کہاں ماں کی عظمت ماں کی شفقت ماں کی محبت ماں کے احسانات کو نظر انداز کر کے عورتوں کے آگے جھکنے والوں اور ماں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والوں توبہ کر لو نیکی کی راہ اختیا ر کر لو ماں کے قدموں پر سر رکھ دو اس وقت تک سر نہ اٹھا ؤ جب تک وہ راضی نہ ہو جائے یاد رکھیے اللہ تعالیٰ ماں باپ کے نا فرمان اور بے ادب کی کسی بھی نیکی اور انصاف کو قبول نہ فر مائے گا لیکن وہ اللہ سے تو بہ کر ے اور اپنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ہر وقت اسے راضی اور خوش رکھنے کی جستجو میں رہے تو اللہ پاک معاف فر ما دے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنی ناراضگی سے بچائے آ مین سما آ مین۔
Leave a Reply