خوبصورت گھوڑا۔
بہت مدت گزری،ملک عرب کی کسی بستی میں ایک شخص رہتا تھا۔اس کا نام احمد تھا۔وہ بہت دولت مند تھا،اور اسی قدر شریف بھی تھا۔احمد لوگوں کی مدد کرنااپنا فرض سمجھتا تھا،جو کوئی بھی اُس کے دروازے پر آتا تھا،خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔ یہ بات تو سب ہی جانتے تھے کہ وہ
اپنی ہر چیز دے سکتاہے،چنانچہ اس نے مانگنے والوں کو قیمتی سے قیمتی شے بھی دی تھی۔البتہ اس کے پاس ایک ایسی چیز بھی تھی جسے وہ کسی صورت میں بھی اپنے آپ سے جدا نہیں کر سکتا تھا،اور یہ چیز تھی ایک خوبصورت گھوڑا۔ عرب کے گھوڑے یوں بھی بڑے خوب صورت اور تیز رفتار ہوتے ہیں،مگر احمد کا یہ گھوڑا تو بے نظیر تھا،اور اتنا خوب صورت کہ آدمی دیکھے تو پھر دیکھتا ہی رہ جائے۔عرب کے بڑے بڑے دولت مندوں نے اس کے لیے بہت بڑی قیمت ادا کرنے کی پیش کش کی،لیکن احمد نے ہر کسی کی پیش کش مسترد کردی۔اسے تو یہ گھوڑا اس قدر عزیز تھا،کہ وہ اسے ایک لمحے کے لیے بھی آنکھوں سے اوجھل ہونے نہیں دیتا تھا۔انسان کو اپنی جان سے زیادہ کوئی اور چیز پیاری نہیں ہوتی ۔مگر دیکھنے والوں کا کہنا یہ تھا کہ احمد کو یہ گھوڑا یقینا اپنی جان سے بھی بہت زیادہ عزیز اور پیارا تھا۔ عرب کے دولت مندوں نے جب دیکھا کہ احمد کسی قیمت پر بھی اپنا گھوڑا فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ صبر کرکے بیٹھ رہے۔اب کوئی بھی احمد سے اس کے گھوڑے کی قیمت دریافت نہیں کرتا تھا،اگر چہ ہر شخص کی خواہش یہ ضرور تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ گھوڑا خرید لے ،تاکہ دیکھنے والے یہ کہہ سکیں کہ یہ ہی وہ شخص ہے جس نے احمد کا گھوڑا خریدلیاہے۔ اور تو سب لوگ مایوس ہو چکے تھے،مگر اب بھی ایک شخص ایسا موجود تھا جو ہر
وقت گھوڑے پر قبضہ کرنے کے متعلق سوچتا رہتا تھا ۔اس کا نام زبیر تھا ،جس کے خود اپنے پاس بیسیوں نہایت اعلیٰ قسم کے گھوڑے اصطبل میں بندھے رہتے تھے ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی گھوڑا ایسا نہیں تھا جو خوب صورتی اور تیز رفتاری میں احمد کے گھوڑے کا مقابلہ کرسکے۔ ایک دن زبیر اپنے دوستوں میں بیٹھا باتیں کررہا تھا۔اس وقت گھوڑوں کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ زبیر نے کہا:”کاش!کوئی شخص میرے سارے گھوڑے لے جائے اور ان کے بدلے میں مجھے صرف احمد کا ایک گھوڑا لادے۔“ یہ بات سب دوستوں نے تعجب سے سنی۔ کسی نے بھی کچھ نہ کہا،لیکن ایک نوجوان جس کا نام قاسم تھا ،بولا:”کیا آپ سچ مچ احمد کا گھوڑا لینا چاہتے ہیں؟“ زبیر کہنے لگا:”میں بالکل سچ کہہ رہاہوں کہ جو شخص مجھے احمد کا گھوڑا لا کر دے گا۔میں فوراً اپنے سارے کے سارے گھوڑے اس کے حوالے کردوں گا۔ میں وعدہ کرتاہوں۔“قاسم کے علاوہ باقی سب دوستوں کو بھی زبیر کے اس پاگل پن پر سخت حیرت ہوئی ۔جو شخص اپنے گھوڑے کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز جانتا ہے،وہ اپنا گھوڑا کس طرح اس کے حوالے کردے گا۔خیر بات ختم ہو گئی اور قاسم اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ گھر جا کر اُس نے مختلف تجویزیں سوچیں کہ احمد سے کیا کہے گا اور کس طرح کہے گا۔یہ سب تجویزیں سوچنے کے بعد وہ دوسرے دن اس بستی کی طرف روانہ ہو گیا جہاں احمد رہتا تھا۔ جب قاسم اس بستی میں پہنچا اور وہ احمد سے ملا ،تو احمد کی باتوں سے اس کو معلوم ہو گیا کہ واقعی اس کو اپنے گھوڑے سے بے پناہ محبت ہے اور جو کچھ اس نے سوچا تھا ،بالکل غلط تھا۔ احمد پر توکوئی بات بھی اثر نہیں کر سکتی تھی۔وہ کسی قیمت پر بھی راضی نہ ہوا۔قاسم نا امید ہو کر احمد کے مکان سے باہر نکل آیا اور سوچنے لگا کہ اسی دن اپنے گھر واپس لوٹ جائے،مگر
پھر اچانک ایک نیا خیال اس کے ذہن میں آگیا اور اس کے چلتے ہوئے پاؤں رُک گئے۔ وہ اسی وقت بازار روانہ ہو گیا۔اس نے ایک چادر خریدی اور اسے بغل میں دابا۔پھر بازار میں اِدھر اُدھر گھومنے لگا۔اسی اثنا میں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہو گئی جو احمد کا بہت ہی گہرادوست تھا۔اس نے قاسم کو بتایا: ”احمد دن میں صرف ایک وقت اپنے گھوڑے پر سواری کرتا ہے اور یہ وقت ہواہے صبح کا۔ احمد صبح کے وقت اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر کافی دور تک سیر کے لیے جاتاہے اور جب واپس آتا ہے تو پھر کسی صورت بھی اس پر سواری نہیں کرتا اور گھوڑا سارا دن اپنی جگہ پر بندھا رہتاہے۔اور احمد بھی اس کے قریب ہی موجود ہوتاہے تاکہ کوئی چور اسے لے نہ جائے یا کوئی دشمن اسے کوئی ایسی زہریلی چیز نہ کھلادے جس سے گھوڑا بیمار ہو کر مر جائے۔ قاسم کو اس بات کی خبر تو ہو گئی تھی کہ احمد صبح کے وقت گھوڑے پر سوار ہو کر سیر کے لیے دور تک جاتاہے۔پھر قاسم کی ایک اور آدمی سے ملاقات ہو گئی۔اس آدمی سے یہ بھی پتا چل گیا کہ احمد جاتا کدھر ہے۔ دوسرے دن قاسم بہت سویرے اُٹھ گیا۔ اس نے اپنی چادر لپیٹی اور پھر اس طرف روانہ ہو گیا،جس طرف سے احمد نے گزرنا تھا۔کافی دور پہنچ کر وہ ایک ٹیلے کے ساتھ پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔اور احمد کا انتظار کرنے لگا۔صبح کی روشنی ابھی پھیلی نہیں تھی۔رات کا آخری پہر گزررہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد افق پر روشنی نمودار ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ پھیلنے لگی۔یکایک دور سے ایک سیاہ سایہ حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔سایہ قریب آتا جارہا تھا۔قاسم نے سمجھ لیا کہ احمد کے سوا اور کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔سایہ حرکت کرتا رہا۔ یکایک کچھ دور ایک
سوار دکھائی دینے لگا۔ قاسم نے جب دیکھ لیا کہ احمد قریب آرہا ہے تو وہ اپنے پیٹ کو پکڑ کر اس طرح ہائے ہائے کرنے لگا ،جیسے وہ سخت تکلیف کی حالت میں ہے اور تڑپ رہا ہے۔ اب احمد اس کے بہت قریب آگیا تھا،اور اس کے کانوں تک قاسم کے ہائے ہائے کی آواز پہنچ گئی تھی،جیسے ہی احمد نے کراہنے کی آواز سنی اُس نے اپنا گھوڑا روکا اور پھر گھوڑے سے نیچے اتر آیا اور بولا:”کیوں بھائی!کون ہو تم اور کیا تکلیف ہے تم کو۔ اس طرح ہائے ہائے کیوں کررہے ہو؟“ قاسم نے احمد کی طرف دیکھا اور بولا:”جناب !میرے پیٹ میں اچانک سخت درد شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ سے ایک قدم بھی چلا نہیں جاتا سخت مجبور ہو کر یہاں بیٹھ گیا ہوں۔“ احمد نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر بیٹھا تے ہوئے بولا: ”چلیے،میں آپ کو شہر لیے چلتا ہوں۔ وہاں آپ کو کسی حکیم کے پاس لے چلوں گا اور آپ کو دوائی لے دوں گا۔“ قاسم نے احمد کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ اچانک قاسم نے کہا:”جناب!ذرا گھوڑا روکیے،میری چادر گر پڑی ہے۔“ احمد نے اپنا گھوڑا روک لیا اور دیکھا کہ قاسم کی چادر دور جاپڑی ہے۔ وہ گھوڑے سے نیچے اُترا اور چادر اٹھانے گیا۔اس سے پہلے کہ وہ چادر تک پہنچے ،قاسم نے للکار کر کہا: ”اب اُدھر ہی رہو،میں گھوڑا لیے جارہاہوں۔یہ گھوڑا اب میری ملکیت ہے اور پھر یہ کہہ کر قاسم نے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور گھوڑا ایک دم ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ احمد نے آواز دی: ”بھائی صاحب!بے شک گھوڑا آپ لے جائیں،مگر میری صرف ایک بات سن لیں۔“ ”کیا ہے؟“قاسم نے گھوڑا روک کر پوچھا۔ احمد بولا:”کسی سے یہ بات ہر گز نہ کہنا کہ تم نے دھوکا دے کر یہ گھوڑا حاصل کیا ہے۔ تم ایک مسلمان ہو اور کوئی مسلمان کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیتا۔“ قاسم نے احمد کی بات سنی اور گھوڑے کی باگ کو جھٹکادیا۔گھوڑا بھاگنے لگا۔ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اس نے باگ کھینچ لی۔احمد کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے،اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی رگ رگ میں کانٹے چبھ رہے ہوں۔ اس سے آگے نہ بڑھا گیا،وہ واپس لوٹ آیا۔احمد ابھی وہیں موجود تھا۔قاسم گھوڑے سے نیچے اُترا اور احمد کے سامنے اس طرح کھڑا ہو گیا جیسے خود کو ایک بہت بڑا مجرم سمجھتاہے۔ایک دولمحے چپ رہنے کے بعد کہنے لگا: ”جناب!مجھے معاف کر دیجیے۔یہ لیجیے اپنا گھوڑا۔میں اپنے خدا سے ،اور آپ سے سخت شرمندہ ہوں۔“
Leave a Reply