بخشی میاں
بخشی میاں کا دروازہ اکثر بند رہتا تھا ۔کھڑکی اس وقت کھلتی جب انھیں پھلوں کے چھلکے پھینکنے ہوتے ،یا گلی میں کھیلتے بچوں کو ڈانٹنا ہوتا۔ اکثر ان کی تیز آواز سنائی دیتی :”گھر میں ٹک کر بیٹھا نہیں جاتا۔ اودھم مچا رکھا ہے محلے میں،کھڑکیاں توڑنے کو پیدا ہوئے ہیں
،سب بھاگ جاؤ۔ اب گلی میں مجھے کوئی نظر نہ آئے۔“ وہ کھڑکی سے سر نکال کر چلاتے تو بچے اپنے اپنے گھروں کے دروازوں کے پیچھے سے انھیں جاتا دیکھ کر ذرا دیر بعد پھر سے اکٹھا ہو جاتے اور کھیل کود میں مگن ہو کر سب کچھ بھول جاتے ۔ دوسروں کے بچوں کو تو کیا انھوں نے کبھی اپنے بچوں کو بھی کھیل کود میں پڑنے نہ دیا تھا۔اگر کبھی وہ گھر سے باہر نکل بھی آتے اور بخشی میاں کو پتا چل جاتا تو وہیں سے پکڑ لاتے ۔ پھر بچوں کے ساتھ ساتھ بیوی کو بھی سنا ڈالتے ۔ بخشی میاں محلے کے کسی فرد کو اپنے لائق نہ سمجھتے ۔ ان کے خیال میں لوگ اس قابل نہیں کہ انھیں منہ لگایا جائے ۔بیٹے بڑے ہو کر ذرا قابل ہوئے تو ایک ایک کرکے گھر چھوڑ گئے۔ اپنی دنیا بنانے کے لئے انھیں نکلنا ہی پڑا۔بیٹوں کے جانے کا ذمے دار بھی وہ بیوی کو ہی ٹھہراتے :” اگر تم ڈھنگ سے ان کی تربیت کر تیں تو وہ جاتے ہی کیوں؟“ وہ اکثر طعنہ دیتے اور بے چاری بیوی خاموشی سے سن لیتی ۔ بخشی میاں کے گھر سے باہر جانے کے بعد اللہ سے فریاد کرنے لگی ۔بیٹے بھی یاد آنے لگے ۔اسے گزرے ہوئے وہ دن یاد آگیا ،جب وہ اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی
تھی․․․․․ ”میری خواہش ہے کہ میں اتنی دولت کماؤں کہ آپ کے لئے ایک محل خرید سکوں!“بلال نے سر اُٹھا کر ماں سے کہا۔ ”اور میری خواہش ہے کہ میں ایک بڑا باغ خریدوں،جس میں قسم قسم کے پھل دار درخت ہوں، پھول ہوں ،سبزہ ہو،جھولے اور بہت کچھ ۔“دانیال کی آنکھوں میں بھی خواب سجے تھے ۔ ”اور میری خواہش ہے کہ میں ایک جہاز خریدوں،جس میں بیٹھ کر اماں کے ساتھ ملکوں ملکوں کی سیر کر سکوں۔ “چھوٹا بھائی نہال بولا۔ ”اور میری خواہش ہے ،میرے تینوں بیٹے میرے پاس ہی رہیں ،میری آنکھوں کا تارا بن کر۔“ماں محبت سے بولی ۔ ”ہم سب بلال بھائی کے محل میں رہیں گے،دانیال بھائی کے باغ کی سیر کریں گے اور میرے جہاز میں گھومیں پھریں گے ۔ “نہال چہک کر بولا۔سب ہنسنے لگے ۔ ماں بچوں کی باتیں یاد کرکے روتے روتے ہنس پڑی ۔ اُدھر بخشی میاں دوستوں میں بیٹھے اپنے کارنامے سنا رہے تھے ۔ ”ارے نانبائی کی اولاد ہے ۔بے شک آج اہم عہدے پر ہے ،مگر ہے تونانبائی ۔ “انھوں نے حاکم شہر کے خاص افسر کے بارے میں شوشہ چھوڑا۔ ”بخشی بھیا!سوچ سمجھ کر بولا کرو۔یہ کیا کہہ رہے ہو ۔دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔“ ایک دوست بولا۔ بخشی میاں چہک کر بولے:”نابھئی ہم کیا کسی سے ڈرے بیٹھے ہیں ۔ اس کے باپ دادا گلیوں میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے ۔انسان کو اپنی اوقات یاد رکھنی چاہیے۔“ وہ سوچ سمجھ کر بولنے والوں میں سے نہ تھے ۔نواز خان سے انھیں نہ جانے کیا پر خاش تھی کہ اس کے خلاف بولتے رہتے ۔ خیر اس وقت تو بات آئی گئی ہو گئی،مگر وہ جو کہتے ہیں منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی ،وہی معاملہ ہوا۔ ایک دن حاکم شہر کے چند کارندے آئے اور بخشی میاں کو لے گئے ۔نواز خان کو تواضع نے ان کے چودہ طبق روشن کر دیے ۔کئی دن مہمان خانے میں رہ کر گھر آئے تو ان کی چلتی زبان رک گئی ۔بیوی کو بھی ان کی بد زبانی سے نجات مل گئی ۔سچ ہے اونٹ پہاڑ کے سامنے آتاہے تو اسے اپنے قد کا اندازہ ہوتاہے ۔ انھیں اپنی کڑوی زبان کے نقصان کا اندازہ ہوا تو اس کے مزاج میں تبدیلی آگئی ،بلکہ کا یا پلٹ گئی ۔بیٹوں کو پتا چلا تو گھر لوٹ آئے ۔ابا کے مشورے سے تینوں بھائیوں نے مل کر ایک جگہ بڑا سا خوب صورت گھر لیا،جس میں ایک خوب صورت ساباغ بھی تھا۔ماں نے تین خوب صورت اور خوب سیرت شہزادیوں جیسی دلہنیں تلاش کرکے بیٹوں کی شادیاں کردیں ۔یوں سب مل جل کر ہنسی خوشی رہنے لگے۔
Leave a Reply