نور دین
میراثی نے اونچی آواز میں کہا ”مولوی صاحب چوری کی بھینس آپ کے باڑے سے نکل آئی ہے“ مولوی صاحب نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور سکتے کے عالم میں دیر تک میراثی کی طرف دیکھتے رہے‘ پنچائیت نے بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا‘ لوگ اٹھے اور آہستہ آہستہ محفل سے غائب ہونے لگے۔ میراثی پیغام دینے کے بعد واپس چلا گیا‘ مولوی صاحب خفگی‘ خجالت اور شرمندگی میں ڈوبتے چلے گئے۔
یہ کیفیت قدرتی تھی‘ ہم جس خطے میں رہ رہے ہیں وہاں مولوی صاحبان عزت اور ایمانداری کا نشان ہوتے ہیں‘ یہ لوگوں کو یہ لوگوں کو نماز بھی پڑھاتے ہیں‘ ان کے کلمے بھی سیدھے کرتے ہیں‘ ان کے جنازے بھی ادا کرتے ہیں اور ان کے چھوٹے بڑے تنازعے بھی نمٹاتے ہیں۔ آپ اندازا کیجئے اس ماحول میں گاﺅں کے واحد مولوی صاحب پر چوری کا الزام لگ جائے اور وہ الزام بھی گاﺅں کی پنچائیت میں سینکڑوں لوگوں کے سامنے لگایا جائے تو مولوی صاحب کی کیا حالت ہو گی؟ ان مولوی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ وہ پنچائیت میں بیٹھے تھے‘ لوگوں کے تنازعوں کا فیصلہ کر رہے تھے‘ میراثی آیا اورمولوی صاحب کی عزت مٹی میں رول دی‘
لوگ اٹھ کر گھروںکو چلے گئے‘ مولوی صاحب سر پکڑ کر بیٹھے رہے ‘ میراثی تھوڑی دیر بعد ہانپتا کانپتا واپس آیا‘ مولوی صاحب کے دونوں پاﺅں پکڑے اور روتے روتے کہا ”مولوی صاحب مجھے معاف کر دیں‘چوری کی بھینس آپ کے باڑے سے نہیں نکلی وہ آپ کے ہمسائے نے چوری کی تھی اور وہ وہیں سے برآمد ہوئی‘ مجھ سے غلطی ہو گئی ‘ میں اب گھر گھر جا کر آپ کی صفائی پیش کروں گا“
مولوی صاحب دیر تک میراثی کو خالی خالی نظروں سے دیکھتے رہے اور پھر آہستہ سے بولے ”نوردین تم اب جو بھی کر لومیں علاقے میں چور بن چکا ہوں‘ لوگ مجھے باقی زندگی چور مولوی ہی کہیں گے“ میراثی نے مولوی صاحب سے اتفاق نہیں کیا لیکن مولوی صاحب کی بات حقیقت تھی‘ دنیا میں سب سے قیمتی چیز انسان کی عزت ہوتی ہے‘ یہ اگر ایک بار داغدار ہو جائے تو یہ دوبارہ صاف نہیں ہوتی۔
Leave a Reply