بابا جی کا مریدوں پر غصہ
باباجی آج بہت غصے میں تھے اور تمام مریدوں کو دھوپ میں کھڑا کر رکھا تھا اور ہاتھ میں جنات نکالنے والا ڈنڈا پکڑے باری باری سب سے پوچھ رہے تھے کہ بھنگ والے ڈرم کے نیچے آگ کس نے جلائی؟؟ لیکن کوئی بھی مرید ماننے کو تیار ہی نہی تھا اور نا کوئی کچھ بتا رہا تھا آخر باباجی آستانے کے وسط میں لگے بوہڑ کے درخت کی چھاؤں میں جا بیٹھے اور مریدوں کو بھی پاس آ کر بیٹھنے کو کہا.. تمام مرید جو کافی دیر سے دھوپ میں کھڑے کھڑے تنگ آ گئے تھے جلدی سے باباجی کے اردگرد بیٹھ گئے۔
باباجی نے پاس رکھے مٹکے سے پانی نکال کر پیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد تمام مریدوں سے بولے کہ تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں..ایک بہت بڑے بزرگ تھے اُنہوں نے اپنے حجرے کے سامنے ایک بیری کا درخت لگا رکھا تھا.. گرمیوں میں لوگ اسکی چھاؤں میں آکر بیٹھتے اور اسکے بیر چُن کر کھاتے.. باباجی یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور اُنہیں اُس درخت سے بے پناہ اُنس ہو گیا تھا.. وہ بالکل اپنے بچوں کی طرح اُس درخت کو پیار کرتے اس پہ پانی چھڑکاتے اُسکی تراش خراش کرتے اور اُسکی کیڑوں مکوڑوں سے حفاظت کرتے.. ایک دن وہ بزرگ صبح اُٹھے تو دیکھا کہ کسی نے اُس درخت کو کاٹ دیا ہے۔ وہ بہت برہم ہوئے اور اپنے تمام مریدوں کو اکٹھا کرکے پوچھنے لگے کہ یہ کس کی حرکت ہے..مریدوں نے بزرگ کو کبھی اتنے غصے میں نہی دیکھا تھا، لہذا وہ تھر تھر کانپنے لگے مگر ایک مرید جو کہ نیا نیا بزرگ کا مرید بنا تھا وہ آگے بڑھا اور اپنی غلطی قبول کی کہ آستانے کی چھت کی مرمت کے لیے لکڑی کی ضرورت تھی اس لیے اُس نے وہ درخت کاٹ دیا.. وہ نہی جانتا تھا کہ وہ درخت اُن بزرگ کو اتنا عزیز تھا.. وہ بزرگ آگے بڑھے اور اُس نوجوان کو گلے لگا لیا اور بولے کہ تم نے سچ بولا ہے لہذا میں تمہیں معاف کرتا ہوں.. درخت تو پھر اُگ آئے گا لیکن اگر آج میں نے تمہیں کچھ کہا تو تم دوبارہ سچ بولنے سے ڈرو گے..باباجی اتنا بول کر چُپ ہو گئے اور مریدوں کی طرف دیکھنے لگےایک مرید اپنی جگہ سے اُٹھا اور باباجی کے قدموں میں آ بیٹھا اور بولا سرکار ڈرم کے نیچے آگ میں لگائی تھی..
اتنا سننا تھا کہ باباجی نے اُس کا سر پکڑ کر ٹانگوں میں جکڑ لیا اور جنات نکالنے والے ڈنڈے سے اُسکی پھینٹی لگانی شروع کر دی اور خوب جم کر دھلائی کر دی..وہ مرید روتے روتے باباجی کی شان میں گندی گندی گالیوں کا نذرانہ پیش کرنے لگا اور پوچھنے لگا کہ میں سچ بولا تو مجھے مارا کیوں؟جبکہ اُن بزرگ کو وہ درخت اتنا عزیز تھا پھر بھی اُنہوں نے اپنے مرید کو سچ بولنے پہ معاف کر دیا تھا..اتنا سننا تھا کہ باباجی دھوتی اُٹھا کر اپنا جلا ہوا پچھواڑا دکھاتے ہوئے بولے جب درخت کٹا تب وہ بزرگ درخت کے اوپر نہی تھے مگر جب تم نے آگ جلائی میں ڈرم کے اندر تھا
Leave a Reply