ایک نیک بادشاہ کے دور میں کسی فاحشہ عورت نے چار جگہ باقاعدہ شادیاں رچا رکھی تھیں
ایک نیک بادشاہ کے دور میں کسی فاحشہ عورت نے چار جگہ باقاعدہ شادیاں رچا رکھی تھیں۔ ایک سے خرچہ پانی لیتی، کچھ وقت گزارتی اور پھر میکے جانے کے بہانے دوسری جگہ مال بٹورنے پہنچ جاتی، آخر کب تک۔۔۔؟ بات نکلتے نکلتے سرکاری دربار تک جا پہنچی۔ تصدیق کیلئے اُسکی عدالت میں طلبی ہوئی۔ چونکہ اسلامی قانون نافذ تھا اس لئے زیادہ امکان یہی تھا کہ جب بات پایۂ ثبوت کو پہنچے گی تو
اِس عورت کیلئے جان بچانا مشکل ہو جائے گا۔ اُس نے ایک سیانے وکیل سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا، “اے خاتون! جان تو بچ سکتی ہے مگر فیس بھاری لگے گی۔۔۔!”عورت نے کہا، “تم فیس کی پرواہ نہ کرو، جان ہے تو جہاں ہے۔ زندہ رہی تو پھر بھی کما لونگی۔۔۔!”، لہٰذا سارا زیور اور تمام جمع پونچی لا کر اُس وکیل کو دے دی۔ وکیل نے کہا عدالت میں یوں کہنا کہ “میں جمعے کے روز جامع مسجد کے پاس سے گزر رہی تھی، تو خطیب صاحب کہہ رہے تھے کہ “اسلام میں چار چار شادیوں کی اجازت ہے۔۔۔!”، چلتے چلتے میں بس اتنی بات ہی سن سکی تھی، تب میں نے اسلام کے اس حکم پر عمل کا ارادہ کر لیا اور پھر عمل کر ڈالا۔ مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ،
یہ حکم صرف مردوں کے لئے تھا، عورتوں کے لئے نہیں۔۔۔!” عزیز دوستو! پتہ نہیں اُس عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ کیا سنایا ہوگا۔ مگر چلتے چلتے آدھی بات سن کر ادھورے اسلام پر عمل کرنے کا رواج اب روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ بڑے شہروں میں سحری اور افطاری کی تفصیلات پر مبنی بینر دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں اصل چیز روزہ نہیں بلکہ سحری اور افطاری ہے۔ اِدھر سحری کا وقت ہوتا ہے تو لوگ بھیڑوں کی طرح سحری کرنے چل پڑتے ہیں، اور اُدھر افطاری کا وقت ہوتا ہے
بےصبروں کی طرف اُدھر کھانے پینے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، لیکن سحری و افطاری کے درمیان کیا کرنا چاہیے، اور کیا نہیں کرنا چاہیے، یہ بات اب اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ لوگ روزہ رکھ کے سارا دِن جھوٹ بولتے ہیں، غیبت کرتے ہیں، چوریاں کرتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، بُری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ وقت گزاری کیلئے موسیقی، شطرنج، تاش اور دوسری کھیلوں سے محظوظ ہوتے ہیں، تو بتائیے روزے کی اصل روح کہاں برقرار رہے گی؟، جب روزے کا مقصد ہی فوت ہو جائے.
Leave a Reply