بہادری
بھیڑ کا بچہ پچاس فٹ اونچی چٹان پر بیٹھا تھا اوراس نے نیچے سے شیر کو گزرتے دیکھا‘ بھیڑ کے بچے نے شیر کو چھوٹا سا پتھر مارا اور ہنس کر بولا ”چچا جان السلام علیکم“ شیر نے غصے سے بھیڑ کے بچے کی طرف دیکھا‘ پھر چٹان کی طرف دیکھا اور اس کے بعد بولا ”بھتیجے یہ تم نہیں بول رہے‘ یہ پچاس ۔ فٹ اونچی دیوار بول رہی ہے“ ۔
دنیا میں آج تک کوئی ایسی دوا‘ کوئی ایسا علاج دریافت نہیں ہوا‘ جو کمزوردل لوگوں کوجرات مند بنا سکے‘ جو کم حوصلہ لوگوں‘ جو بزدل اشخاص کو بہادر‘ حوصلہ مند اور جرات مند بنا سکے۔اندلس کے آخری فرمانروا ابو عبداللہ محمد جب غرناطہ کی چابیاں فرڈی نینڈو کے حوالے کر کے رو پڑا تو اس کی ماںنے کہا تھا ”بیٹاتم مردوں کی طرح جس سلطنت کی حفاظت نہیں کر سکے اب اس کیلئے عورتوں کی طرح آنسو نہ بناﺅ“ اسی سے ملتی جلتی بات مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کو اس کے وزیراعظم نظام الملک نے کی تھی۔
نظام الملک نے بادشاہ کو کہا تھا ”ظل الٰہی فوجیں بادشاہوں کو جرات مند نہیں بناتیں‘ بادشاہوں کی جرات فوجوں کو بہادر بنایا کرتی ہے۔ کاش آپ کی والدہ نے آپ کو دودھ میں جرات گھول کر پلائی ہوتی “۔۔جرات اللہ کا وہ عظیم تحفہ ہے جوادھار ملتا ہے‘ خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی سے چھینا جا سکتا ہے۔ یہ انسان ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے چنانچہ جب کوئی کمزور دل‘ بے حوصلہ اور بزدل شخص اچانک جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے تو اس کے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ ہوتا ہے‘ کسی بزدل شخص کی بہادری بھیڑ کے اس بچے کے سلام سے ملتی جلتی ہے جوپچاس فٹ اونچی چٹان پر بیٹھا تھا۔
Leave a Reply