ہوشیار باش
گجرات میں ایک گاؤں تھا‘ گاؤں میں تین با اثر خاندان تھے‘ تیسرے خاندان کا بزرگ گاؤں کا چودھری تھا‘ یہ پورے گاؤں کے فیصلے کرتا تھا‘ گاؤں کے دو خاندان معاشی دوڑ میں آگے نکل گئے‘ ان کے بچے ملک سے باہر گئے‘ وہاں سے پاؤنڈ‘ ڈالر اور ریال کمائے‘یہ دولت گاؤں میں آئی‘ پکے گھر بنے‘ ٹیوب ویل لگے‘ کھیت آباد ہوئے‘ گاڑیاں آ گئیں‘ ڈیرے بڑے ہو گئے اور نئی نئی رشتہ داریاں شروع ہو گئیں جبکہ چودھری خاندان ان کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے پیچھے رہ گیا‘ یہ زمین جائیداد‘ اثر ورسوخ اور افرادی قوت میں دونوں خاندان سے آگے تھا مگر روپے پیسے میں ان کا نہیں کر سکتا تھا‘ چودھری خاندان اس صورتحال سے خائف تھا‘ خاندان یہ سمجھتا تھا اگر ان دونوں کا اثر نہ ٹوٹا تو یہ دونوں ان کے خاندان کو تباہ کر دیں گے چنانچہ یہ ان خاندانوں کو کمزور کر نے کی پلاننگ کرتا رہتا تھا‘ قدرت نے ایک دن انہیں سنہری موقع دے دیا‘ معاشی لحاظ سے مضبوط خاندانوں کے درمیان زمین پر جھگڑا ہوا‘
یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے‘ یہ معاملہ پنچایت میں آیا او رپنچایت کے سربراہ تیسرے خاندان کے بزرگ چودھری صاحب تھے‘ چودھری صاحب نے اس تنازعے کا عجیب حل نکالا‘ انہوں نے فرمایا ’’آپ دونوں خاندان پیسے‘ رتبے اور اثر ورسوخ میں برابر ہو چکے ہیں‘آپ جب تک ایک دوسرے کے رشتے دار نہیں بنیں گے‘ آپ اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہیں گے‘ آج زمین کا مسئلہ ہو گیا‘ کل جانوروں کا ایشو بن جائے گا اور پرسوں پانی کا تنازعہ پیدا جائے گا‘ آپ لڑتے رہیں گے اور یوں پورے گاؤں کا ماحول خراب جائے گا‘‘ چودھری صاحب نے فرمایا ’’میرا فیصلہ ہے‘ آپ ایک دوسرے کے رشتے دار بنیں تا کہ مسائل پیدا نہ ہوں‘‘ یہ ایک زبردست تجویز تھی‘ پورے گاؤں نے تجویز سے اتفاق کیا‘ پنچایت میں بیٹھے بیٹھے ایک فریق کی بیٹی کا رشتہ دوسرے فریق کے بیٹے سے کر دیا گیا‘ مٹھائی منگوائی گئی‘ منہ میٹھا ہوا‘ ڈھولچی کو بلوا کر ڈھول بجایا گیا‘ فریقین نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے‘چودھری صاحب کا بیٹا پنچایت میں موجود تھا‘ وہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا‘ لوگ گھروں کو چلے گئے تو وہ غصے سے اٹھا اور باپ سے کہا ’’ ابا جی یہ آپ نے کیا کیا‘ یہ اکیلے بھی ہم پر بھاری تھے لیکن آپ نے دونوں کو متحرک کر دیا‘ یہ دونوں مل کر اب ہمیں گاؤں میں نہیں رہنے دیں گے‘‘ باپ نے بیٹے کو چارپائی پر ساتھ بٹھایا اور نرم آواز میں بولا ’’ بیٹا میں نے آج ان لوگوں کا مستقل بندوبست کر دیا ہے‘ آپ لوگ لسی پی کر سو جاؤ‘
یہ اب تمہیں کبھی تنگ نہیں کریں گے‘‘ بیٹے نے باپ کی طرف غور سے دیکھا اور پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ باپ نے جواب دیا ’’ میرے بچے میں نے ایک بے جوڑ رشتے کی بنیاد رکھ دی ہے‘ لڑکی ایم اے کر رہی ہے جبکہ لڑکا ان پڑھ‘ گنوار اور لڑاکا ہے‘ یہ شادی نبھ نہیں سکے گی‘ طلاق ہو جائے گی اور اس کے بعد ان کے درمیان ایک لمبی جنگ چھڑ جائے گی‘یہ زندگی بھر ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور یوں ہم دو تین نسلوں تک گاؤں کے چودھری رہیں گے‘‘ بیٹے نے قہقہہ لگایا اور باپ کے گھٹنے پکڑ لئے.سٹیفن جان سٹیڈمین کی نظر میں چودھری جیسے لوگ لمیٹڈ سپائلرہیں‘ سٹیڈمین کا خیال ہے‘ یہ لوگ اپنی اہمیت‘ اپنی شناخت اور اپنے نام کے بھوکے ہوتے ہیں‘یہ اپنی اہمیت کو زندہ رکھنے کیلئے تنازعات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دیتے‘ یہ لوگ مذاکرات کو ایک ایسا ٹویسٹ دے دیتے ہیں کہ فریقین سمجھنے لگتے ہیں‘ ہم نے مسئلہ حل کر لیا‘ یہ مٹھائیاں بانٹتے ہیں‘ یہ ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں‘ ڈھول تاشے بجاتے ہیں اور مبارک بادیں سمیٹ کر گھر چلے جاتے ہیں لیکن چند دن بعد معلوم ہوتا ہے‘
اس ’’شاندار‘‘ حل نے ایک دائمی تنازعہ پیدا کر دیا ہے اور یہ تنازعہ اب کبھی حل نہیں ہو گا‘ میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو سٹیفن جان سٹیڈمین کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ سٹیڈمین امریکی ہیں‘ یہ تنازعوں اور مذاکرات کی دنیا کے سب سے بڑے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ 2005 ء میں اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل اور سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے خصوصی مشیر بھی رہے.سٹیڈمین نے دنیا کے دو سو سال کے بڑے تنازعوں کا تجزیہ اور مطالعہ کیا اور 1997ء میں مذاکرات کی سپائلر تھیوری دی‘ یہ تھیوری دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہارورڈ نے شائع کی‘ یہ مذاکرات اور قیام امن پراسیس پر اب تک دنیا کی سب سے اچھی دستاویز ہے‘سٹیفن جان سٹیڈمین نے اس دستاویز میں ایسے لوگوں کا ذکر کیا جو گجرات کے دیہات سے لے کر کیوبا تک دنیا کے تمام چھوٹے بڑے تنازعے حل نہیں ہونے دیتے‘ یہ سپائلر ہیں اور یہ جب تک مذاکراتی عمل کا حصہ رہتے ہیں‘ مذاکرات اس وقت تک منطقی انجام تک نہیں پہنچتے‘ سٹیڈمین نے ان لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا‘پہلی قسم لالچی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے‘ ان لوگوں کا تنازعے سے معاشی فائدہ وابستہ ہوتا ہے‘ یہ فریقین کو اسلحہ بیچتے ہیں‘ یہ ان کی رقمیں کھاتے ہیں‘ یہ ان کی بلیک منی کو وائیٹ کرتے ہیں‘ یہ اغواء برائے تاوان یا بھتے میں سے حصہ وصول کرتے ہیں اور یہ فریقین کے وسائل‘ جائیداد‘ دولت اور اثاثوں پر نظر جما کر بیٹھے ہوتے ہیں‘
یہ جانتے ہیں‘ یہ مسئلہ حل ہو گیا تو ہمیں مالی نقصان ہو گا چنانچہ یہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرتے رہتے ہیں‘ یہ فریقین کے درمیان غلط فہمیاں بھی پھیلاتے رہتے ہیں‘ یہ انہیں ڈراتے بھی رہتے ہیں اور یہ ایک فریق کی اطلاع دوسرے کو بھی دیتے رہتے ہیں‘ مذاکرات کو ان سے بچانے کا واحد طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ان کے مالی مفادات کو مذاکرات کی کامیابی سے نتھی کر دیں‘ آپ انہیں تنازعے سے بڑا لالچ دے دیں‘یہ مذاکرات کو سبوتاژ نہیں کریں گے‘ دوسری قسم میں محدود عناصر یا لمیٹڈ سپائلر شامل ہوتے ہیں‘ یہ گاؤں کے اس چودھری کی طرح اہمیت کے بھوکے ہوتے ہیں‘ یہ مسترد شدہ‘ کمزور اور ماضی کا پیوند بنے لوگ ہوتے ہیں‘ مذاکرات کی وجہ سے انہیں اچانک اہمیت مل جاتی ہے‘یہ لائم لائیٹ میں آ جاتے ہیں اور بڑے بڑے لوگ ان سے ملاقاتیں شروع کر دیتے ہیں‘ اخباری رپورٹر اور ٹیلی ویژن کے کیمرے ان کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ان کی ایک ایک حرکت بریکنگ نیوز بن جاتی ہے‘ ٹی وی پر ٹن ٹن اور شاں شاں کی آوازیں آتی ہیں اور خوبصورت اور سریلی نیوز اینکر اپنے ناظرین کو بتاتی ہے‘مولانا سمیع الحق کا چودھری نثار سے ٹیلی فون پر رابطہ ہو گیا یا عرفان صدیقی نے پروفیسر ابراہیم کو پیغام دے دیا ’’ہم آج ہی ملیں گے‘‘ یا پھر مفتی کفایت اللہ نے مولانا فضل الرحمن سے درخواست کر دی ’’آپ مجھے انفرادی سطح پر مذاکراتی عمل کا حصہ بننے دیں‘‘ یا پھر طالبان نے مولانا عبدالعزیز کے ذریعے حکومت کو پیغام دے دیا
’’ہمیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے مذاکرات کیلئے بلایا جائے‘‘ یہ لوگ عام حالات میں گم نام ہوتے ہیں لیکن مذاکرات کی وجہ سے انہیں اہمیت مل جاتی ہے اور یہ جانتے ہیں‘ یہ مذاکرات جس دن کامیاب ہو جائیں گے‘ یہ اسی دن دوبارہ گوشہ گمنامی میں چلے جائیں گے‘ یہ اس دن نیوز رہیں گے اور نہ ہی بریکنگ نیوز چنانچہ یہ اپنی اہمیت قائم رکھنے کیلئے کبھی مذاکراتی عمل مکمل نہیں ہونے دیتے‘لمیٹڈ سپائلرز کو انگیج کرنے کا صرف ایک طریقہ ہوتا ہے‘ آپ انہیں یقین دلا دیں‘ یہ مذاکراتی عمل جس دن مکمل ہو جائے گا‘ آپ کو اس دن مستقل اور بڑا عہدہ مل جائے گا‘ آپ اس عہدے پر ہر وقت بریکنگ نیوز رہیں گے‘ یہ اس یقین پر مذاکراتی عمل کو آسان بنا دیں گے‘ تیسری قسم ٹوٹل سپائلرز کی ہوتی ہے‘ یہ نظریاتی لوگ ہوتے ہیں‘یہ کسی کاز‘ کسی نظریئے کی گٹھڑی لے کر گھر سے نکلتے ہیں‘ یہ اس نظریئے کیلئے ہر قسم کی قربانی بھی دیتے ہیں‘ یہ لوگ جب اپنے لیڈروں کو مذاکرات کرتے دیکھتے ہیں تو یہ دکھی ہو جاتے ہیں اور یہ اس دکھ میں کوئی ایسی حرکت کر گزرتے ہیں جس کے نتیجے میں پورا مذاکراتی عمل سبوتاژ ہو جاتا ہے‘
یہ لوگ اس وقت طالبان میں بھی موجود ہیں اور ریاست کی صفوں میں بھی. یہ اس وقت یقیناً طالبان کی قیادت سے پوچھ رہے ہوں گے‘ ہم نے اگر لادین طاقتوں سے مذاکرات ہی کرنا تھے تو پھر ان سے لڑنے‘ جنگلوں میں مارے مارے پھرنے اور سینکڑوں جانیں قربان کرنے کی کیا ضرورت تھی‘ ہم چپ چاپ گھروں میں بیٹھے رہتے‘ دوسری طرف سے حکومت سے بھی یہ پوچھا جا رہا ہو گا‘ ہم نے 51 ہزار معصوم لوگوں کے قاتلوں سے صلح ہی کرنی تھی تو پھر انھیں کالعدم قرار دینے کی کیا ضرورت تھی؟ان کے سروں کی قیمت طے کرنے اور ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کی کیا ضرورت تھی؟یہ لوگ مذاکرات کیلئے انتہائی خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو جرگوں میں خود کش حملہ کر دیتے ہیں یا پھر مذاکرات کیلئے آئے ہوئے لوگوں کو گرفتار یا اغواء کر لیتے ہیں یا پھر ان پر ڈرون حملہ کروا دیتے ہیں‘یہ ٹوٹل سپائلر کسی نہ کسی طریقے سے پورے مذاکراتی عمل کو برباد کر دیتے ہیں. سٹیفن جان سٹیڈ مین کی تھیوری بہت دلچسپ ہے‘ آپ اسے پڑھیں تو آپ کو حکومتی اور طالبانی کمیٹی میں موجود کرداروں کی سمجھ آجاتی ہے اور آپ ان لوگوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں جو اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں بم دھماکے کر رہے ہیں‘حکومت اور طالبان دونوں کی صفوں میں اس وقت تینوں قسم کے سپائلر موجود ہیں‘ یہ سپائلر مذاکرات کے عمل کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتے چنانچہ دونوں طرف سے سازشیں ہو رہی ہیں‘ اگر خدانخواستہ یہ سازشیں کامیاب ہو گئیں تو پاکستان کو روانڈا اور سری لنکا بنتے دیر نہیں لگے گی لہٰذا میری درخواست ہے دونوں فریق ان سازشیوں پر نظر رکھیں‘یہ لوگ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں‘ یہ کمیٹیوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں‘ یہ مذاکرات کی پوری میز اڑا سکتے ہیں چنانچہ ہوشیار باش ‘سازشی تیزی سے گھیرا تنگ کر رہے ہیں.
Leave a Reply