ہمسایہ ملک کا وہ علاقہ جہاں باپ اپنی بیٹیوں کو جسم فروشی پر مجبور کردیتے ہیں اور اس شرمناک کاروبار کیلئے گھروں میں خصوصی
شدت پسندی اور مذہبی جنونیت ہی بھارت کا واحد تعارف نہیں ہے بلکہ اس ملک میں جسم فروشی کا مکروہ کاروبار بھی اس قدر عام پایا جاتا ہے۔ کہ اس کے وسعت اور پھیلاؤ پر یقین کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ اس ملک میں کچھ علاقے تو ایسے بھی ہیں کہ جہاں آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہی جسم فروشی ہے اور زندگی کا دارومدار اسی کام پر ہے۔ ریاست گجرات کا گاؤں واڈیا بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے جہاں پر یہ مکروہ دھندہ ناصرف علی الاعلان کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہاں کے لوگ اپنے اس کام پر فخر بھی کرتے ہیں۔
اسی طرح ریاست مدھیا پردیش کے بچارا قبائل میں لڑکیاں جب 14 سال کیعمر کو پہنچ جاتی ہیں تو انہیں اس مکروہ کاروبار میں ڈال دیا جاتاہے۔ اور اس کیلئے ان کے گھروں میں ایک علیحدہ کمرہ بھی تعمیر کیا جاتاہے جبکہ اب یہ دیگر ذاتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی اس دلدل میں لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس قبیلے کے لوگوں نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے اب بچوں کی خریدو فروخت بھی شروع کر دی ہے، یہ تفصیلات اس وقت منظر عام پر آئیں جب مقامی پولیس نے علاقے میں جسم فروشی کیخلاف مہم شروع کی اور چھاپوں کے دوران ایک اور انکشاف بھی ہوا کہ لوگ خالی جسم فروشی کے مکروہ کاروبار میں ہی نہیں بلکہ انسانی سمگلنگ میں بھیملوث ہیں۔ ریاست اترپردیش کے گاؤں نت پوروا میں گزشتہ چار صدیوں سے جسم فروشی کا کام روایت کے طور پر جاری ہے۔ کماتکا گاؤں میں کنواری لڑکیوں کی نیلامی کی جاتی ہے اور پھر وہ ساری عمر عصمت فروشی کے دھندے میں گزارتی ہیں۔ اسی طرح بھارت کی دیگر کئی ریاستوں میں ایسے علاقے ہیں جہاں پورے کے پورے گاؤں ہی اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ اور یہ سلسلہ قدیم وقتوں سے اسی طرح جاری ہے۔ مودی سرکار کی پست سوچ ملاحظہ ہو کہ اس تاریک پہلو پر توجہ دینے کی بجائے اس کے سر پر جنگی جنون سوار ہے۔
Leave a Reply