بادشاہ نے بڑھیا کی جھونپڑی توڑ دی
۔ اس نے ایک عظیم الشان محل بنوایا اور اس کی تعمیر پرکافی مال خرچ کیا ، جب تعمیر مکمل ہوچکی تو اس نے ارادہ کیا کہ میں سارے محل کا دورہ کروں اوردیکھوں کہ یہ میری خواہش کے مطابق بنا ہے یا نہیں چنانچہ با دشاہ نے اپنے چند سپاہیوں کو ساتھ لیا اور محل کو دیکھنے چل پڑا۔ا ندر سے دیکھنے کے بعد اس نے محل کے بیرونی حصوں کو دیکھنا شروع کیا اور محل کے اردگرد گرد چکر لگانے لگا ۔
ایک جگہ پہنچ کر وہ رک گیا اور ایک جھونپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: ”یہ ہمارے محل کے ساتھ جھونپڑی کس نے بنائی ہے ؟” سپاہیوں نے جواب دیا: چند روزسے یہاں ایک مسلمان بوڑھی عورت آئی ہے ، اس نے یہ جھونپڑی بنائی ہے اوروہ اس میں اللہ عزوجل کی عبادت کرتی ہے۔
جب بادشاہ نے یہ سنا تو بڑے غرور بھرے انداز میں بولا:” اس غریب بڑھیاکویہ جرأت کیسے ہوئی کہ ہمارے محل کے قریب جھونپڑی بنائے ، اس جھونپڑی کو فوراً گرا دو ۔” حکم پاتے ہی سپاہی جھونپڑی کی طر ف بڑھے،بڑھیا اس وقت وہاں موجود نہ تھی ۔ سپاہیوں نےکچھ ہی دیر میں اس غریب بڑھیا کی جھونپڑی کواکھاڑ پھینکا۔ بادشاہ جھونپڑی گروانے کے بعد اپنے دوستوں کے ہمراہ اپنے نئے محل میں چلا گیا ۔
جب بڑھیا واپس آئی تو اپنی ٹوٹی ہوئی جھونپڑی کو دیکھ کر بڑی پریشان ہوئی اور لوگو ں سے پوچھا :” میری جھونپڑی کس نے گرائی ہے ۔” لوگو ں نے بتا یا :” ابھی کچھ دیر قبل بادشاہ آیا تھا، اسی نے تمہاری جھونپڑی گروائی ہے ۔”
یہ سن کر بڑھیا بہت غمگین ہوئی اور آسمان کی طر ف نظر اٹھا کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کرنے لگی : ”اے میرے پاک پروردگار !جس وقت میری جھونپڑی توڑی جارہی تھی، میں موجود نہ تھی لیکن میرے رحیم وکریم پرودگار! تُو تو ہر چیز دیکھتا ہے، تیری قدرت تو ہر شئے کو محیط ہے ، میرے مولیٰ !تیرے ہوتے ہوئے تیری ایک عاجز بندی کی جھونپڑی توڑدی گئی ” ۔
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس بڑھیاکی دعا مقبول ہوئی ۔ اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس پورے محل کو بادشاہ اور اس کے سپاہیوں سمیت تباہ وبرباد کر دو ۔” حکم پاتے ہی حضرت سیدنا جبرائیل علیہ السلام زمین پر تشریف لائے اور سارے محل کو اس ظالم بادشاہ اور اس کے سپاہیوں سمیت زمین بوس کر دیا۔
(عیون الحکایات : ج؛ ۱ ص ؛ 297 تا 298 حکایت ؛ 140 مطبوعہ مکتبہ المدینہ )
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ضرور دیا جاتا ہے۔ مظلوم کی دعا بارگاہ خدا و ندی میں ضرور قبول ہوتی ہے ۔ اللہ عزوجل ہمیں ظالموں کے ظلم سے محفوظ رکھے اور ہماری وجہ سے کسی مسلمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔۔۔ آمین۔
Leave a Reply