ماں ہو تو ایسی
صبح ہی صبح میاں بیوی کا خوب جھگڑا ہو گیا، بیگم صاحبہ غضبناک ہو کر بولیں۔ بس، بہت کر لیا برداشت، اب میں مزید ایک منٹ بھی تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی”میاں جی بھی طیش میں تھے۔ بولے۔ میں بھی تمہاری شکل دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکا ہوں۔ دفتر سے واپس آوں تو مجھے نظر نہ آنا گھر میں۔ اٹھاواپنا ٹین ڈبا اور نکلو یہاں سے میاں جی غصے میں ہی دفتر چلے گئے۔
بیگم صاحبہ نے اپنی ماں کو فون کیا اور بتایا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بچوں سمیت میکے واپس آ رہی ہے۔ اب مزید نہیں رہ سکتی اس جہنم میں۔ ماں نے کہا “بندے کی پتر بن کے آرام سے وہیں بیٹھ، تیری بڑی بہن بھی اپنے میاں سے لڑ کر آئی تھی، اور اسی ضد میں طلاق لے کر بیٹھی ہوئی ہے، اب تو نے وہی ڈرامہ شروع کر دیا ہے.. خبردار جو ادھر قدم بھی رکھا تو صلح کر لے میاں سے اب وہ اتنا ب را بھی نہیں ہے”۔ ماں نے لال جھنڈی دکھائی تو بیگم صاحبہ کے ہوش ٹھکانے آئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔ جب رو کر تھکیں تو دل ہلکا ہو چکا تھا۔ میاں کے ساتھ لڑائی کا سین سوچا تو اپنی بھی کافی غلطیاں نظر آئیں۔ منہ ہاتھ دھو کر فریش ہوئی اور میاں کی پسند کی ڈش بنانی شروع کر دی۔ اور ساتھ سپیشل کھیر بھی بنا لی۔ سوچا شام کو میاں جی سے معافی مانگ لوں گی، اپنا گھر پھر بھی اپنا ہی ہوتا ہے۔ شام کو میاں جی گھر آئے تو بیگم نے ان کا اچھے طریقے سے استقبال کیا۔ جیسے صبح کچھ بھی نہ ہوا ہو۔ میاں جی کو بھی خوشگوار حیرت ہوئی۔ کھانا کھانے کے بعد میاں جی جب کھیر کھا رہے تھے تو بولے “بیگم، کبھی کبھار میں بھی زیادتی کر جاتا ہوں.. تم دل پر مت لیا کرو، بندہ بشر ہوں، غصہ آ ہی جاتا ہے”۔ میاں جی بیگم کے شکر گزار ہو رہے تھے۔ اور بیگم صاحبہ دل ہی دل میں اپنی ماں کو دعائیں دے رہی تھی۔ ورنہ تو جذباتی فیصلے نے گھر تباہ کر دینا تھا۔ سبق: اگر والدین اپنی شادی شدہ اولاد کی ہر جائز ناجائز بات کو سپورٹ کرنا بند کر دیں تو 90فیصد بگڑنے والے رشتے بچ جاتے ہیں۔
Leave a Reply