خالی پیٹ زیتون کا تیل پی لیں اور پھر اپنے اندر عجیب و غریب
زیتون کے تیل میں بھاڑی مقدار میں میکرونیوٹریشن ، فیٹی ایسڈ اور وٹامن موجود ہوتے ہیں جو اسے ایک صحت مند غذا بناتی ہے۔آج ہم آپ کو خالی پیٹ زیتوں کا تیل پینے کے چند فوائد بتانے جارہے ہیں۔بڑی آنت کا دردزیتون کے تیل میں موجود حفاظتی خلیات کینسر کے خطرہ کا سبب ہونے والے خطرے کو کم کردیتا ہے۔اس کے علاوہ بڑی آنت کی کارگردگی کو بہتر کرنا اور قبض سے نجات ملنا زیتون کے اہم فائدوں میں سے ایک ہے۔
اچھی جلد ، بال، ناخن اور ہڈیاں:زیتون کا تیل جلد ، ناخن اور بال کیلئے بھی بے حد مفید ہے۔ زیتون کا تیل ناخن اور بالوں کو بڑھانے ، انہیں ملائم اور صحت مند رکھنے میں مدد کرتا ہے۔جگر صاف رکھنا:جگر جسم کا ایک اہم جز ہے جو انسانی جسم میں ضروری عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جگر جسم کے اندرونی سسٹم کو صاف کردیتا ہے لیکن بعض اوقات ہمیں جگر کو بھی صاف کرنا پڑتا ہے جو زیتون تیل کی مدد سے ممکن ہوتا ہے۔اچھے نتیجے کیلئے 2 چمچ زیتون کا تیل لے اور 3/1 حصہ لیموں کے جوس کا لے اور اسے گلاس میں ملا کر پی جائیں۔
وزن کم کرنا:زیتون کاتیلا ایک خاص اور صحت مند قسم کے فیٹی ایسڈ سے مالا مال ہوتا ہے جو آپ کے پیٹ کو فل محسوس کرواتا ہے۔ زیتون کا تیل ، گھی کا بہت اچھا متبادل ہے۔قوت مدافعات:زیتون کے تیل میں موجود فیٹی ایسڈکا قود مدافعات کے مختلف عمل میں کافی اہم حصہ ہے۔یہ ایسڈ قوت مدافعات کی گردگی کو بہتر کرنے میں اور بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے۔سوجن کو کم کرنا:زیتون کا تیل آئی بوپروفن کی طرح سوجن کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق 3سے4 چمچ زیتون کا تیل، دس فیصد آئی بوپروفن کے مقابلے زیادہ اثر رکھتا ہے۔
دل کو محفوظ رکھنا:کولیسٹرول دو قسم کو ہوتے ہیں ایک ایچ دی ایل (اچھی قسم) جو دل کو محفوظ رکھنے کیلئے بہت ضروری ہوتی ہےاور دوسری ایل دی ایل (بُری قسم)۔ جسم میں ایچ ادی ایل کی مقدار بڑھانے کیلئے زیتون کا تیل استعمال کرنا چاہیے۔زیابطیس کو کنٹرول:زیتون کے تیل کی مدد سے کولیسٹرول اور بلڈ گلوکوز کی سطح کم ہوتی ہے جس کا یہ مطلب ہوا کہ زیابطیس کے مریضوں کیلئے یہ غذا کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔دماغ کی حفاظت کرنا:زیتون کا تیل دماغ کو 20 فیصد اکسیجن فراہم کرتا ہے، اس کے علاوہ زیتون کا تیل الزائمر کی بیماری سے بھی محفوظ رکھتا ہےاور یاداشت تیز کردیتا ہے جس کے نتیجے میں ڈپریشن سے چھٹکارا پایا جاتا ہے۔
Leave a Reply