مچھیرا اور ہارورڈ سے پڑھا بزنس مین٬ عقلمند کون؟
ایک بزنس مین ایک گاؤں میں گیا اور ندی کے کنارے بیٹھا مچھلیا ں پکڑ رہا تھا کہ ایک گاؤں والا عام آدمی آگیا۔ وہ غالباً کوئی مچھیرا تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی کشتی چلا رہا تھا اور جب اس نے اس پار پہنچ کر اپنی کشتی کنارے پر باندھی تو اس بزنس مین نے دیکھا کہ اس کی کشتی میں بہت زبردست مچھلیاں لدی ہوئی تھیں۔ اور دھوپ میں تو یہ مچھلیاں اور بھی اچھی لگ رہی تھیں۔ اسے لگا کہ یہ مچھلیاں تو بڑے مہنگے داموں بک جائیں گی۔ اس نے اس آدمی سے پوچھا کہ ان کا
کرو گے؟ وہ آدمی بولا کہ صاحب ان میں سے آدھی بازار میں بیچ آؤں گا اور باقی اپنے گھر لے جاؤں گا۔ میرے بیوی بچے کھا لیں گے۔ اس بزنس مین نے بولا تمہیں یہ مچھلیاں پکڑنے میں کتنا وقت لگا ہے؟ وہ مچھیرا بولا کہ صاحب تین سے چار گھنٹے۔۔۔وہ بزنس مین بولا کہ بھائی میری بات غور سے سنو میں بہت پتے کی بات بتانے جا رہا ہوں، اس سے تمہاری اگلی چند نسلیں امیر پیدا ہوں گی۔مچھیرا غور سے سننے لگا۔ اس نے بولا کہ میں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے اور میں تمہارا ہنر دیکھ کر تمہیں بتا سکتا ہوں کہ اگر تم اپنی محنت دگنی کر دو تو تم بہت آگے پہنچ سکتے ہو۔تین چار کی جگہ آٹھ گھنٹے روز کے لگا لیا کرو۔ تم اپنے فالتو وقت میں کیا کرتے ہو؟ مچھیرا بولا کہ ابھی بازار جا کر مچھلیاں بیچوں گا پھر گھر جاؤں گا بیگم میرے لیے بھی مچھلی بنا دے گی۔ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤں گا۔ پھر ہم رات کو دیر تک جاگ کر آپس میں باتیں کرتے رہیں گے، کبھی کبھی میں شام میں دل بہلانے کے لیے اپنی بستی کا چکر لگاتا ہوں ادھر اور مچھیروں کے ساتھ گیت گاتا ہوں۔ بڑا مزہ آتا ہے، ہفتے میں دو دن اپنی گھر والی کے ساتھ شام میں ادھر ندی کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہوں۔ زندگی بہت پرسکون گزر رہی ہے۔ہارورڈ کا گریجویٹ بولا کہ تم نرے بے وقوف ہو۔ آج کے بعد میری
نصیحت پر عمل کرو بس۔ اپنا کام دگنا کر دو تو اس سے دگنی مچھلیاں پکڑا کرو گے؟ مچھیرا بولا ہاں صاحب آپ ٹھیک بول رہے ہو پر اس سے کیا ہو گا؟ یہ بولا تم پھر آدھی سے زیادہ مچھلیاں بازار میں
بیچنا اور اس سے تمہیں زیادہ پیسے مل جائیں گے۔ان پیسوں کو جمع کرنا شروع کرنا۔ پھر ان پیسوں سے ایک بڑی کشتی خریدنا تاکہ تم اور زیادہ مچھلیاں پکڑ سکو۔ اس مچھیرے نے پوچھا صاحب بڑی کشتی لینے سے کیا ہو جائے گا؟ وہ آدمی بولا گدھے اس طرح تم اپنا کام بہتر بنا رہے ہو۔ پھر اور زیادہ مچھلیاں پکڑو گے اور اور دگنے پیسے کماؤ گے۔ پھر دو سے تین اور تین سے چار کشتیاں خرید لینا۔ پھر ان کے لیے ملازم مچھیرے رکھ لینا اور اس طرح تم اپنا کاروبار چلا سکتے ہو۔ پھر تم شہر خود ہی اپنے بندے بھیج کر مچھلیاں بیچ سکتے ہو۔ ابھی تم گاؤں کی منڈی میں کم داموں پر بیچ کر آتے ہو۔ وہ لوگ جب یہی مچھلیاں شہر لے کر جاتے ہیں تو دگنے پیسے کماتے ہیں۔ ہر طرح سے تمہارا منافع زیادہ ہوتا جائے گا۔ سمجھے؟ وہ مچھیرا بولا صاحب اس سب سے ہو گا کیا؟ وہ بزنس مین بولا اس سے تم ایک کروڑ پتی بھی بن سکتے ہو۔۔مچھیرا حیران ہو گیا اور بولا صاحب کتنا وقت لگے گا؟ وہ بولا یہی کوئی بیس سے بائیس سال لگ جائیں گے۔ لیکن اس کے بعد تمہیں محنت نہیں کرنی پڑے گی اور تم سکون سے گھر بیٹھ کر کھاؤ گے۔مچھیرا بولا کہ صاحب میں کروڑ پتی بن کر کیا کروں گا؟ وہ ہارورڈ کا پڑھا بزنس مین بولا پاگل آدمی یہ سوچو کہ تم ہر رات اپنی مرضی کے مطابق لیٹ سو سکو گے، اپنے بچوں کے ساتھ کتنا زیادہ وقت گزار سکو گے۔ پھر یاروں دوستوں کے ساتھ گانے گاتے پھرنا۔پیسوں کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ پیسوں کی ریل پیل ہو گی۔ بیوی کے ساتھ مزے کرتے پھرنا، ادھر
ادھر۔۔دنیا دیکھنا۔۔۔وہ مچھیرا بولا صاحب میں نے آپ کو بتایا تو ہے کہ میں تو یہ سب ابھی بھی کرتا ہوں۔ وہ آدمی بولا او سائیں اس میں اور اس میں بہت فرق ہے ، ابھی تمہیں روز کام کرنا پڑتا ہے اور ڈر لگتا ہے کہ کسی دن پیسے کم بھی پڑ سکتے ہیں۔ پھر تو تو نے ایک خزانہ جمع کیا ہوا ہو گا تو تب تجھے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ وہ مچھیرا بولا صاحب آپ کی ترکیب اور میری زندگی میں سب کچھ مشترک ہے سوائے اس کے کہ میں اپنی جوانی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کا قائل ہوں۔ اور مجھے پیسوں کا کوئی ڈھیر اپنے سکون کے لیے نہیں چاہیے ہے۔ آپ کی کہانی میں تو میں پوری عمر صرف کام ہی کرتا رہوں گا اور حاصل دونوں سے ایک ہی چیزیں ہو رہی ہیں تو میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ میری چھوٹی کشتی اور تھوڑی مچھلیوں کے ساتھ میری زندگی میں رونق بھی ہے اور خوشی اور مسرت بھی۔
Leave a Reply