کانچ کی گڑیا
وہ بارش میں کھڑی بھیگ رہی تھی اور آسمان سے برسنے والے موتی اس کی معصوم سی اداؤں سے متاثر ہوئے بغیرشان بے نیازی سے برسے چلے جارہے تھے۔وہ لڑکی اپنی ہی دنیامیں مگن ہاتھ پھیلائے موسم کو انجوائے کررہی تھی۔اس کا بس نہیں چل رہاتھاکے وہ بارش کے ہرقطر ے کو اپنے دامن میں
سمیٹ کراپنی روح کو مہکادے۔وہ چاہتی تھی کہ یہ رات طویل ہوجائے اور اس کاہرپل اس کے لئے قرارکاباعث بن جائے ۔ وہ بارش کے ہرقطرے کو اپنے وجود میں اتارکراس کی تازگی کو محسوس کرناچاہتی تھی۔یہ انمول پل اسے زندگی میں بہت عرصے بعد ملے تھے سو وہ اُن سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔وہ بہت خوش تھی اس کے قلب میں ایک سکون تھاجس میں معصوم سے جذبات مچل رہے تھے۔وہ بارش میں دوڑنا چاہتی تھی ،کھیلناچاہتی تھی ۔اپنے وجود کی ساری خوشبوکوماحول میں بکھیرناچاہتی تھی۔۔مگر۔۔۔۔۔ وہ نہیں تھا۔۔۔ہاں وہ نہیں تھا۔اس کے سپنوں کا راجکماراس کے پاس نہیں تھا۔وہ جو اسے ساری دنیا میں عزیزتھا،جس کے بغیر وہ ادھوری تھی اور نہ جانے اب تک کیسے زندہ تھی ۔اس کا دل دھک سے ڈوب گیا۔وہ اچانک وہیں بیٹھ گئی اور اس کی آنکھوں سے سارے جذبات امڈآئے تھے۔اس کے آنسوؤں میں یادوں کا وہ تاج محل تھاجو اس نے بہت مان سے اور سلیقے سے بُناتھا۔اب وہ تنکا تنکاکر کے اس کے پورے وجود سے پھوٹ رہاتھا۔اس کی روح تک زخمی تھی کیونکہ وہ اسے پا نہیں سکی تھی اور جب پا نہیں سکی تھی تو ٹوٹ کر اب رفتہ رفتہ بکھر رہی تھی ۔اس کی سانسیں اکھڑرہی تھیں
اور پلکوں سے آنسو نہیں بلکہ خون بہہ رہاتھاجس نے اس کے پورے جسم کو نچوڑ کے رکھ دیاتھا۔وہ واقعی کی کانچ کی بنی ہوئی تھی اور اس کا دل موم کا تھا۔گڑیاجیسے معصوم جذبات اور احساسات کی مالک اب ریزہ ریزہ ہورہی تھی ۔مگر کوئی بھی اسے سمجھ نہیں سکتاتھااس کے اندر ایک خلاء تھاجو اب کوئی چاہ کر بھی پُر نہیں کرسکتاتھا۔ وہ بکھررہی تھی اور بارش کے قطرے اسے بھگورہے تھے ۔کاش وہ بھی اس کے ساتھ ہوتا،وہ دونوں مل کر کھیلتے ۔وہ اُسے پکڑتا،یہ اسے پکڑتی ۔۔۔پر ایساہونہیں سکتاتھا۔اس نے پیارکیاتھاجس میں پاکیزگی تھی ،حیاتھی اور شرم کا ہر دامن تھاجسے دونوں نے مضبوطی سے تھام رکھاتھا۔لیکن وہ اس کی قسمت میں نہیں تھا،سو وہ خود کوماردیناچاہتی تھی۔اس نے جس چاہت میں ڈوب کر اسے اپنے دل میں سجایاتھااب اسی رشتے سے اس کا دل اچاٹ ہوگیاتھا۔اسے پیارمحبت سب فریب اور دھوکالگتاتھا۔نادان کو کون سمجھاتاکے جسے چاہاجاتاہے ضروری نہیں ہوتاکے اسے پا بھی لیا جائے ۔بعض رشتوں کا تقدس نہ پاکر بھی قائم رکھاجاسکتاہے ۔۔۔۔۔لیکن وہ کانچ سے بنی ہوئی انمول سی گڑیا تھی اسے بس اب خود کو توڑناتھا۔ماضی کی یادوں سے چھٹکارا پاکر سکون کی زندگی کو قبول کرناتھاجو اسے موت کے بعد ہی نصیب ہوسکتی تھی۔شاید وہ اسکے نصیب میں ہی نہیں تھا،وہ کسی اورکا تھا۔اس کے ڈوبٹے کا دامن آنسوؤں سے گیلاہوچکاتھاجس میں بارش کے قطروں کی آمیزش بھی شامل تھی اور آنکھیں خشک ہوکر خوابوں کی وادی میں قدم رکھ چکی تھیں۔ اس کی وہیں آنکھ لگ گئی تھی اور بارش اسی طرح اپنا راگ الاپے چلی جارہی تھی
Leave a Reply