حضرت علیؓ کی فطانت اور دور اندیشی
ایک شہسوار دوڑتا ہوا آیا اور بلند آواز سے عرض کرنے لگا: یا رسول اللہؐ قریش مکہ نے بد عہدی کر دی، نبی کریمؐ نے فتح مکہ کے لیے تیاری شروع فرما دی۔ دوسری جانب حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ نے قریش کے نام ایک خط لکھا جس میں انہوں نے حضور نبی کریمؐ کی مکہ روانگی اور مکہ پر فوج کشی کی تیاریوں کے متعلقخبر کا ذکر کیا۔ حاطبؓ نے وہ خط ایک عورت کو دیا، اور اس کو کچھ مال دیا کہ وہ یہ خط قریش مکہ تک پہنچا دے، چنانچہ اس عورتنے وہ خط اپنے سر
کے بالوں میں چھپا کر اوپر سے جوڑا کر لیا اور فوری طور پر مکہ کے لیے روانہ ہوئی۔ حاطبؓ کے اس عمل کی خبر وحی آسمانی کے ذریعہ پہنچ گئی تو حضورِ اقدسؐ نے حضرت علیؓ اور حضرت مقدادؓ یا حضرت زبیرؓ کو گرفتاری کے لیے بھیجا اور فرمایا: اس عورت کو گرفتار کرو حاطب رضی اللہ عنہ نے اس عورت کے ہاتھ قریش مکہ کو خط لکھا ہے جس میں اس نے ہماری تیاری وغیرہ کے متعلق ان کو ہوشیار کیا ہے۔ وہ دونوں حضراتدوڑتے ہوئے گئے اور اس عورت کو اسی جگہ پا لیا، اس عورت سے کہا: کیا تیرے پاس کوئی خط ہے؟ اس نے گھبراتے ہوئے کہا: نہیں، میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ان دونوں نے اس عورت کے سامان اور کجاوہ کی تلاشی لی مگر کچھ نہ ملا، جب وہ ناامید ہو کر واپس جانے لگے تو حضرت علیؓ نے اس عورت کو پُرعزم اور ایمان بھرے قلب سے کہا: خدا کی قسم! رسول اللہؐ پر آنے والی وحی جھوٹی نہیں ہو سکتی اور رسول کریمؐ نے بھی ہم سے جھوٹ نہیں بولا،۔ جب اس عورت نے معاملہ کی سنگینی اور ان کے چہرہ پر آثارِ سنجیدگی دیکھی تو کہنے لگی: ذرا چہرہ پھیرو۔ آپؓ نے اس سے منہ پھیرا تو اس نے اپنے سر کے بالوں سے وہ خط نکالا حضرت علیؓ کا چہرہ دمک اٹھا، وہ خط پکڑا اور اسے لے کر رسول اللہؐ کی جانب روانہ ہوگئے۔سکھ جن مسلمان عورت پر عاشق ہو گیا فرما رکھا ہے کہ وہ انسانوں کو اذیت پہنچانے اور ان کے معاملات میں دخل اندازی کر کے ان کی گھریلو اور سماجی زندگی تباہ کرنے والے ابلیسی جنات کی پکڑ لیا کریں، مگر اس علم کی بنا پر بہت سے جھوٹے دعویدار بھی ہوتے ہیں اور اللہ والوں کی بد نامی کا باعث بن جاتے ہیں، میرے مرید محمد الیاس قادری نے ایسے بہت سے عاملوں کے بارے میں سن رکھا تھا جو جنات وغیرہ جیسی شیطانی مخلوق کو پکڑنے اور آسیب زدہ انسانوں کی جان ہلکی کرانے کا دعویکرتے تھے مگر وہ اپنے علمی مشاہدے کی وجہ سے یقین نہیں کرتے تھے، محمد الیاس قادری ویسے بھی لبرل حلقے میں شمار ہوتے تھے جو منطق اور حقیقت پر یقین رکھتےہیں. ان کے حلقہ دوستان کا شمار کیمونسٹوں میں ہوتا تھا، چند واقعات ایسے رونما ہوئے کہ انہیں اپنے نطریات تبدیل کرنے پڑ گئے. ہو ایوں کہ ایک دن میں انکے گھر گیا تو موضوع ایسا چھڑ گیا جس میں محمد الیاس قادری بڑھ چڑھ کر تنقید کر رہے تھے، وہ جنات کے وجود کو نہ مانتے نہ ہی کرامات کے قائل تھے، اسی اثنا میں انہیں خبر ملی کہ
ہمسایہ میں ایک عورت بہت بیمار ہے اور گھر والے اس کی تیمار داری کرنے جا رہے ہیں، اس عورت کی بیماری لا علاج تصور کی جاتی تھی اور ڈاکٹروں ، حکیموں نے جواب دے دیا تھا کہ اس کو کوئی مرض نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ بستر سے لگی ہوئی تھی اور زندگی بڑی تیزی سے ریت کی طرح مٹھی سے پھسل رہی تھی، میں نے الیاس قادری سے کہا کہ انہیں بھی خاتون کی تیماری داری کرنی چاہیے کہ اس طرححسن سلوک بڑھتا اور ثواب ملتا ہے، محمد الیاس قادری نے ترت جواب دیا آپ کیوں نہیں جاتے خیر میں انکے ساتھ پیر صاحب کی خواہش پر ہمسایہ کے گھر لے گیا. میں نے جب خاتون پر توجہ فرمائی تو القا ہوا کہ اسے تو سایہ ہے جسمانی نہیں روحانی بیماری ہے، یہ سن کر گھر والے حیران ہوئے تو کہا پیر صاحب اگر اسے سایہ ہے تو اس کا علاج بھی آپ ہی کریں، میں نے خاتون کے بستر کا حصار کیا، اس وقت وہ بے ہوش تھی اور اسے ڈرپ لگی ہوئی تھی، میں نے پڑھائی شروع ی تو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ مریل اور بیمار سے عورت یکدم اتھی اور تیزی سے مجھ پر جھپٹی اور ان کی آنکھیں نوچنے کی کوشش کی، سبلوگ اچانک گھبرا گئے، میں نے کہا ہاں بھئی کون ہے تو، میں عاشق سنگھ ہوں، اس کا عاشق ہوں، تم چلے جاؤ ورنہ میں اس کو بھی مار دوں گا اور تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گا، عورت کے لہجے میں ایک مرد انتہائی غصہ سے بول رہا تھا. تمام لوگ دم سادھے بیٹھے تھے، تو چاہتا کیا ہے ؟ میں نے سوال کیا، میں اس کو مارنا چاہتا ہوں، پچھلے 35سال سے اس پر قابض ہوں، اس کی مور ت اور موت سے ہی مجھے شانتی ملے گی، عاشق سنگھ بولا، اگر تو جان لے کر ہی چھوڑنا چاہتا ہے تو میری لے لو،
میں نے کہا تو وہ پھر مجھ پر جھپٹا، میں نے اس سے پوچھا ہم کیسے یقین کریں تو واقعی سکھ ہے، اگر سکھ ہے تو تجھے اپنے گرو کا واسطہ ہے چلا جا کیونکہ تیرے گرو ہمارے بزرگوں کی بڑی عزت کرتے تھے. عاشق سنگھ نے اس موقع پر اپنا کلمہ بھی پڑھ کر سنایا جو عجیب سا تھا، خیر وہ تگ و دو کے بعد مان گیااور اس عورت کی جان چھوڑنے کے بعد بھارت چلے جانے پر رضا مند ہو گیا، اس واقعہ نے الیاس قادری کی آنکھیں کھول دیں. اگر وہ اپنی آنکھوں سے یہ نطارہ نہ دیکھتا تو یقیناًً اس حقیقت کو وہم اور جہالت گر دانتا، اس کے ساتھ ہی اس نے مجھ کو آزمانے کی کوشش کی. انسان ایک دم اپنے نطریات سے تائب نہیں ہوتا، ہوا یوں کہ جب بھی میں قصور کے پاس اپنے گاؤں جاتا تو الیاس قادری بھی میرے ساتھ ہو لیتا، خاص طور پر جہاں جنات کا بسیرا ہوتا یا کسی کا علاج کرنا ہوتا تھا، وہ میرا بغور جائزہ لیتا اور حجتیں کرتا، بال کی کھال اتارتا قریبہی ایک گاؤں ہے ویر کے ، وہاں ایک گھر میں آگ لگ جایا کرتی تھی، جس کی وجہ سے گھر کا سامان بھی جل جاتا اور مکین بھی خوفزدہ رہتے تھے. گاؤں والے بھی اس گھر والوں کے پاس جانے سے کترارتے تھے، ان کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی کیونکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ گھر میں کس وقت آگ لگ جائے، لوگ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا پاتے تھے، مشہور ہو چکاتھا کہ یہاں جنات کا پورا کنواں بیٹھا تھا، کنواں عملیات میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنات جیسی مخلوق آباد ہوتی ہے، ویر کے گاؤں کے اس گھر میں کئی کنویں تھے اور بہت زیادہ جنات آباد تھے، انہیں وہاں سے نکالنے کی ہمت کوئی بھی نہیں کرتا تھا، سب کہتے تھے کہ کوئی تگڑاپیر یا عامل ہی ان کو وہاں سے نکال کر انسانوں کو انکے شر سے بچا سکتا ہے، یہ بہت برا متحان تھا اور الیاس قادری نے مجھے اس امتحان میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا. ایک وقت میں ایک جن کا اتار ا کرنا آسان نہیں ہوتا، عامل کو جان سے گزر کر اس انجانی اور شریر مخلوق سے لڑنا پڑتا ہے اگر اس پر وہ قابو پا لے تو پھر شرائط بھی منوا لیتا ہے، ویر کے میں تو پورا کنوں بیٹھا ہوا تھا اور انہیں آگ لگانے کی قوت و تسخیر بھی حاصل تھی، یہ سارے ہندوا اور سکھ جنات تھے. میں وہاں گیا اور بڑے اطمینان سے پورے کنویں کو قابو کیا اور انکے سردار کو بلا کر اسکے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ وہ مسلمان انسانوں کو تنگ کر کے فساد پھیلا رہے ہیں جس سے انسانی بستیوں میں ہلاکتوں اور خوف کا اندیشہ ہے اس لیے وہ شرافت سے چلے جائیں تو بہتر ہے، پہلے تو انہوں نے آگ سے مجھے ڈرانا چاہا لیکن اللہ کا کلام شیطان کے پیرو کاروں کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے، ان جنات کو بھی گاؤں چھوڑ کر انڈیا جانے پر مجبور ہونا پڑا
Leave a Reply