میرے عیسائی ہونے کی وجہ سے مسلمان مجھ سے
عجم کے ایک عیسائی بادشاہ نے عقیدت ظاہر کرنے کے خیال سے اپنے ملک کے ایک نامور طبیب کو حضورنبی کریم صلی علیہ و آلہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں اس خیال سے بھیجا کہ وہ مدینہ شریف میں رہ کر بیمار مسلمانوں کا علاج معالجہ کر سے۔اس طبیب کو مدینہ شریف میں رہنے کی اجازت مل گئی اور وہ مطب کھول کر وہاں رہنے لگا لیکن کتے نے ہی دن گزر گئے ایک مسلمان بھی علاج کرانے کے خیال سے اس کے مطب میں نہ آیا۔ طبیب نے اپنے طور پر خیال کیا کہ شاید یہ لوگ میرے عیسائی ہونے کی وجہ سے مجھ سے علاج نہیں کراتے۔
چنانچہ وہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بات کی شکایت کی کہ مسلمان مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور اس وجہ سے علاج نہیں کراتے۔ حضورنبی کریم صلی علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا، ایسی بات ہر گز نہیں بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ لوگ بیمارہی نہیں ہوتے اور ان کے تندرست رہنے کی خاص وجہ یہ ے کہ جب تک خوب بھوک نہ لگے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے اور جب کچھ بھو ک باقی ہوتی ہے تو د ستر خوان سے اٹھ جاتے ہیں۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا یہ ارشاد مبارک سن کر طبیب مطمئن ہو گیا۔ اسکی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ مدینہ شریف کے مسلمان علاج کی غرض سے اس کے مطب میں کیوں نہیں آتے ؎ بولنے میں اور کھانے میں اگر ہو اعتدالمعتبر بنتا ہے انساں، محترم رہتی ہے جانخیق میں پھنستے ہیں ہم بے اعتدالی کے سببہوا گر محتاط تو گھٹتی نہیں انساں کی شانوضاحت:حضرت سعدی علیہ الرحمہ نے اس حکایت میں با عزت اور تندرست رہنے کا زریں گر بتا یا ہے۔ دنیا کے تمام دانشمند اس بات پر متفق ہیں کہ کم کھانے کم بولنے اور کم سفر کرنے والے لوگ فائدے میں رہتے ہیں۔یہ سب باتیں یقیناً ضروری ہیں لیکن ان کا اصل فائدہ اس وقت پہنچتا ہے جب اعتدال اور احتیاط کا راستہ اختیار کیا جائے۔
Leave a Reply