انسان کے چھ باطنی دشمن
انسان کے چھے دشمن اس کے وجود میں ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ یہ دشمن اس کی زندگی عذاب بناتے رہتے ہیں۔ پہلا دشمن اس کا ڈر اور خوف ہوتا ہے۔ کہیں میں ناکام نہ ہو جاؤں؟ کہیں لوگ مجھ سے نفرت نہ کرنے لگیں؟ کہیں لوگ میرا مزاق نہ اڑانے لگیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ کوئی بھی انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خوف اپنے اندر لے کر پیدا نہیں ہوتا، نہ ہی اس وقت اس کے اندر دلیری ہوتی ہے۔ انسان جن چیزوں سے ڈرتا ہے ان کے بارے میں وہ اپنے ماحول سے سیکھتا ہے۔ کبھی اپنے کسی اپنے کسی تلخ تجربے سے، کبھی کسی اخبار سے اور کبھی کسی اور کی ناکامی یا بدنامی کی داستان سن کر کچھ ڈر ایسے ہوتے ہیں جو بالکل جائز ہوتے ہیں جیسے کسی انسان کا رات کے دو بچے کسی مشکوک علاقے میں جا نکلنا۔
ایسی ہر بے وقوفانہ حرکت سے حد درجہ اجتباب کرنا چاہیے ہے۔ خوف سے بچنے کا ایک آسان طریقہ ہے، جو بھی چیز، انسان ، ماحول یا واقعہ تمہارے کسی خوف کو ابھارتا ہو اس سے دور رہو اور ایسی ہر چیز سے کنارہ کشی اختیار کر لو جو تمہیں ڈراتی ہیں۔ دوسرا دشمن ہے بے حسی۔ جب انسان کسی اور کے ساتھ نا انصافی ہوتے ہوئے دیکھتا ہے اور اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتا تو وہ در اصل اسی وقت اپنے لیے گڑھا کھود لیتا ہے ۔ کیونکہ جو باقیوں کے ساتھ ظلم کر رہا ہے، تم اس کے ہاتھ سے کب تک بچے رہو گے؟ تیسرا دشمن ہے کوئی فیصلہ نہ کر پانے کی طاقت۔ جو انسان بھی بروقت کوئی درست فیصلہ نہیں لے پاتا وہ ایک موقع گنوا دیتا ہے۔ اگر وہ اس وقت کوئی اچھا فیصلہ کر لیتا تو آج اس کا پھل اسے مل رہا ہوتا۔ جب بھی ہم کوئی بروقت فیصلہ نہیں لے پاتے تو اپنا بہت بڑا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔چوتھا دشمن ہے شک۔ شک انسان کا موذی ترین دشمن ہے کیونکہ یہ انسان کا دل اور زندگی دونوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ جب انسان اور لوگوں پر شک کرنے لگ جاتا ہے تو ان سے بد گمان ہو کرکنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے اور اس سے اس کی دنیا ویران ہو جاتی ہے۔ اس طرح اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے ۔ اور جب انسان اپنی صلاحیتوں پر شک کرتا ہے تو اس میں احساس کمتری جنم لیتا ہے اور وہ اپنے آپ سے پیار نہیں کر پاتا۔ جو انسان اپنے آپ سے پیار نہ کرے وہ کسی اور انسان کے کسی کام کا نہیں رہتا کیونکہ وہ چاہ کر بھی کسی اور کو پیار نہیں
کر سکتا کیونکہ وہ اپنے آپ کو کسی قابل تصور نہیں کرتا۔اس طرح اس کے دل کی دنیا بھی ہمیشہ ویران رہتی ہے۔ پانچوں دشمن ہے پریشانی۔ ہر انسان کی زندگی میں مسئلے مسائل آتے رہتے ہیں۔ اگر ہر چھوٹے چھوٹے مسئلے پر انسان پریشان ہوجائے تو وہ اپنی عمر کم کر لیتا ہے۔ ایسے انسان کو بیماریاں لگنے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس دشمن سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو جو خیالات بھی تمہیں پریشان کر رہے ہوں ان کو بند کر کے ایک چھوٹے سے ڈبے میں ڈال دو۔ اگر تم اس مسئلے کا کوئی بروقت حل نکال سکتے ہو تو اچھی بات ہے اور اگر وہ تمہارے اختیار سے باہر ہے تو اسے وقتی طور پر بھلا دو۔ جب تمہاری استطاعت ہو تو اس کا حل نکال لو۔
جب کسی چیز کے بارے میں آپ کچھ کر ہی نہ سکتے ہوں تو اس کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب کوئی آپ کو دبائے اور آپ کی حوصلہ شکنی کرے تو اس کو الٹے پڑ جاؤ، جس چیز پر وہ تنقید کرے اس میں اتنی محنت لگاؤ کہ اسے تنقید کا موقع نہ ملے۔ چھٹا اور آخری دشمن ہے ضرورت سے زیادہ احتیاط۔ ڈرپوک ہونا انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ اگر تم رسک نہیں لو گے تو کامیاب کیسے ہو سکتے ہو۔ زیادہ تر کامیاب انسان اپنی زندگی میں باقیوں سے ہٹ کر کوئی نہ کوئی کام کرتے تھے۔ اگر وہ سمجھتے کہ کیونکہ کوئی اور یہ تجربے نہیں کر رہا تو مجھے بھی نہیں کرنے چاہیے تو وہ کامیاب کیسے ہوتے۔انسان کو اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنا چاہیے اور اپنے ان چھے موذی ترین دشمنوں سے دن رات لگاتار لڑائی جاری رکھنی چاہیے ہے۔ اور لوگوں سے لڑنے بھڑنے کے بجائے اگر انسان اپنے اندر کے ناسوروں سے جنگ کرتا رہے تو کسی اور کے لیے نقصان کا باعث بنےنہ ہی اپنا وقتضائع کرے
Leave a Reply