”میرااللہ اس وقت کیوں نہیں سنتا جب میں مانگتاہوں“

حدیث کی کتاب جامع ترمذی کی ایک حدیث میں پیارے پیغمبر ﷺ کی ایک دعا مذکور ہے اللہ کے نبی ﷺ یہ دعامانگا کرتے تھے: اللھم انی اسئلک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی حبک اللھم اجعل حبک احب الی من نفسی واھلی والماء البارد .یااللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتاہوں تومجھے اپنی محبت عطا کردے اور ہر اس شخص کی محبت عطا کردے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور مجھے

ایسے عمل کی توفیق عطا کر جو عمل تیری محبت تک پہنچادے۔اور یا اللہ!ت میرے نزدیک اپنی محبت سب سے زیادہ محبوب کردے یہاں تک کہ میری جان سے بھی زیادہ میں تجھ سے محبت کروں میں اہل عیال سے بھی زیادہ تجھ سے محبت کروں اور میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ تجھ سے محبت کروں۔یہ پیارے پیغمبر ﷺ کی دعا ہے اس کا مفہوم بڑا ہی وسیع ہے، بڑا ہی کشادہ ہے ،اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت کا مل جانا وہ عظیم نعمت ہے جس شخص کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت مل گئی پھر اس کااللہ تبارک وتعالیٰ کےساتھ تعلق جڑ جاتا ہے پھر اسے جو بھی بھلائی ملتی ہے،جو بھی خیر ملتی ہے،۔جو نعمت ملتی ہےاورجو انعام ملتا ہے تو فورا اس کاذہن محبوب یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جاتا ہے پھر اس کاذہن اپنی صلاحیت کی طرف نہیں جاتا،اور اپنے کمال کی طرف نہیں جاتا ،اور اپنی

کارکردگی کی طرف نہیں جاتا بلکہ فورا اس کاذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جاتا ہے کہ یہ مجھے جو کچھ ملا ہے یہ بھلائی، یہ انعام ،یہ نعمت یہ سب اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے اور یہ ایک عظیم عقیدہ ہے کہ نعمت کے ملنے پر آدمی کاذہن فورا اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے یہ نہیں کہ وہ اس کو اپنا کمال سمجھے، میں یہ ہوں، یہ ہے میری صلاحیت، یہ ہے میرا کمال کہ میں نے یہ بھی حاصل کرلیا۔،مجھے یہ بھی مل گیا ! نہیں جس شخص کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت مل جائے پھر وہ اس خیر بھلائی جوا سے ملتی ہے ملتے ہی اس کاذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جاتا ہے اور اللہ کی طرف سے آنے والی ہر نعمت کی نسبت اللہ کی طرف کرنا یہی اللہ تبارک وتعالیٰ کو مطلوب ہے ،یہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی چاہت ہے ۔صحیح بخاری (الرقم:1038,846)میں حدیث موجود ہے،حدیبیہ والی رات

بارش ہوئی صبح کو اللہ کے نبی ﷺ نے نماز فجر پڑھائیفلماانصرف واقبل علی الناس۔ ،جب پیارے پیغمبر ﷺ نماز سے فارغ ہوئے لوگوں کی طرف چہرہ کیا تو لوگوں سے ایک سوال کیا : ھل تدرون ماذا قال ربکم؟ کیا تم جانتے ہوں کہ آج تمہارے رب نے کیا فرمایاہے:قالوا اللہ ورسولہ اعلم صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین نے جواب دیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو علم ہے کہ اس نے کیا کہا اور پھر اس نے اپنے رسول کو وحی کے ذریعے بتایا کہ اس نے کیا کہا،اصل علم اللہ کو ہے پھر اللہ نے وحی کے ذریعےاپنے رسول کو بتایا کہ اس نے کیا کہا، یعنی ہمارے علم میں نہیں اب آپ ہمیںبتائیں گے تو ہمیں پتا چلے گا، پیارے پیغمبرﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تبارک وتعالیٰ نے آج فرمایا ہے :۔أصبح عبادی مؤمن بی وکافر ،یہ جو بارش ہوئی ہے اس بارش کی وجہ سے میرے بندے جو ہیں انہوںنے کفریہ کلمات کہے پھر

پیارے پیغمبر ﷺ نے آگے ارشاد فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے:جنہوںنے یہ کہا:مطرنا بفضل اللہ ورحمتہ، آج کی جو بارش ہوئی ہے ہم پر یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی وجہ سے ہوئی ہے ،جس جس نے یہ کہا وہ مجھ پر ایمان لایا ، اس نے اپنے ایمان کی تجدید کی اور جس نے یہ کہا: مطرنا بنوع کذا وکذا۔کہ فلاں سیارے اور فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے اس نے کفریہ کلمہ کہا اس حدیث سے کیا معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو کیا چیز پسند ہے کہ جو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نعمت نازل ہو،جو بھی بندے کو خیر پہنچے….بندے اگراس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں تواللہ تبارک وتعالیٰ خوش ہوتا ہے ہاں اگر کوئی اس کی نسبت کسی اور کی طر ف کرتا ہے کسی اور مخلوق کی طرف،تو اللہ تبارک وتعالیٰ کو یہ چیز پسند نہیںہے، بات وہی ہے۔میرے بھائیو! کہ ضرورت ہے کہ ہم اللہ

تبارک وتعالیٰ سے اس کی محبت مانگیں جس خوش نصیب کو،جس سعادتمند کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت مل گئی پھر اس کو جو بھی خیر ملے گی جو بھلائی ملے گی اس کا ذہن فوراً اپنے محبوب یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے گا پھر اس کا ذہن اور کسی طرف نہیں جائے گا اپنی طرف نہیں جائے گا کہ یہ میرا کمال ہے ،یہ میری صلاحیت ہے ، میں نے اپنی صلاحیت کو استعمال کرکے یہ چیز حاصل کی۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ہوگی تو نعمت کے ملتے ہی ذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے گا۔[وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ ](البقرۃ: ۱۶۵)قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کی نشانی بتائی کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ ٹوٹ کے محبت کرتے ہیں ۔یہ چیز کیوں احادیث میں مذکور ہوئی ؟اس لئے کہ یہ اہم ترین ضرورت ہے بندوں کی کہ بندوں کو اللہ کی محبت مل جائے

،اس میں بندوں کی دنیا کی بھی خیر ہے اور آخرت کی بھی خیر ہے، اور جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت میسر تھی جن پر یہ انعام ہوا تھا واقعتا پھر ان کی زندگی ایک نمونہ بن گئی ،آئیڈیل بن گئی انہیں جوخیر عطا ہوتی،بھلائی عطا ہوتی فورا اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف کرتے ۔ آیئے!چند مثالیں آپ کے سامنے رکھوں:سیدہ مریم iزیر کفالت ہیں سیدنا زکریا علیہ السلام کے اور جس حجرے میں وہ مقیم ہیں اس میں صرف سیدنا زکریا علیہ السلام ہی کا آنا جانا ہے۔ایک مرتبہ سیدنا زکریا علیہ السلام سیدہ مریمiکے پاس گئے حجرےمیں،جس میں وہ رہتی تھیں خالو تھے سیدہ مریم کے سیدنا زکریا علیہ السلام وہاں جاکر دیکھا کہ کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوئی ہیں۔،انہوں نے سوچا کہ یہاں میرا ہی آناجانا ہے میں نہیں لایا تو پوچھا :[قَالَ يٰمَرْيَـمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا](آل عمران:۳۷)اے مریم! یہ کہاں سے

آئیں،کھانے پینے کی چیزیں ؟آج ہم جیسا اگر کوئی ہوتا تو یہ موقعہ تھا اپنے آپ کی تعریف کرنے کا کہ دیکھا تم مانتے نہیں ہو ہم ایسے ہیں ،اس طرح کے جملے ہماری زبان سے نکلتے ہیں، ایسے جملے زبان سے نہیں نکلنے چاہئیں ،سیدہ مریم iنےکہا:[قَالَتْ ھُوَمِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ ](آل عمران:۳۷)یہ اللہ کی طرف سے ہے، اللہ نے مجھ پر انعام کیا ہے، یہی عقیدہ یہی منہج اختیار کرنا چاہئے کون اختیار کرے گا؟ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ملے گی ،جس کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت موجزن ہوگی اس کو جیسے ہی کوئی خیر ،۔بھلائی ملے گی ،کوئی نعمت ملے گی فورا اس کاذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے گا۔ذوالقرنین کاتذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے ،سورۂ کہف میں ہے:[اِنَّا مَكَّنَّا لَہٗ فِي الْاَرْضِ وَاٰتَيْنٰہُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا۝۸۴ۙ ](الکھف:۸۴)اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑا انعام عطا کیا

تھا،حکمرانی عطا کی تھی، ذوالقرنین کو ،اورہرچیز کے وسائل اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذوالقرنین کو عطا کیے تھے ،ہرچیز کے اسباب عطا کیے تھے، وہ زمین کا سفر کرتے ہیں ایک جگہ پہنچتے ہیں لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے وہ شکایت کرتے ہیں کہ: [ اِنَّ يَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ](الکھف:۹۴)یہ یاجوج وماجوج قوم جو ہے انہوںنے ہمیں بڑا پریشان کیا ہے۔آپ کوئی بند باندھ دیں تاکہ یہ ہمارے پاس نہ آسکیں ذوالقرنین نے کیا کہا: [اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا۝۰ۭ ](الکھف:۹۶)لوہے کے بہت بڑے ٹکڑے لے آؤ ،وہ ٹکڑے جہاں سے وہ آئے تھے وہاں پر لوہے کے وہ ٹکڑے رکھے ،آگ جلائی اور گرم تانبا بھی ڈال دیا یوں ایک پورا بند بن گیا ،بہت بڑا کمال ،بہت بڑی صلاحیت کا اظہار ہوا تھاذوالقرنین سے کتنی دانائی کے ساتھ ایک مضبوط بند باندھا، یاجوج ماجوج کے

درمیان ان کے سامنے کتنا مضبوط بند اب یہاں لوگوں کا ذہن ذوالقرنین کی طرف جاسکتا تھا کہ یہ اتنے باکمال آدمی ہیں، اتنی صلاحیت والے آدمی ہیں اور اتنے عقلمند ہیں اور اتنے دانشور ہیں کس طرح مضبوط بند باندھا ہے لیکن یہ سارا کام کرنے کے بعد کہتے ہیں:[قَالَ ھٰذَا رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّيْ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَہٗ دَكَّاۗءَ۝۰ۚ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّيْ حَقًّا۝۹۸ۭ](الکھف:۹۸) تم یہ نہ سمجھنا کہ یہ میرا کوئی کمال ہے یہ میرے رب کی رحمت ہے۔یہ جوکچھ تم نے دیکھا بڑی صلاحیت والاکام تھا بڑے کمال والاکام تھایہ ساری صلاحیت یہ سارا کمال میرے رب کی رحمت کا نتیجہ ہے آج ہمارا مزاج کیا ہے تھوڑی سی صلاحیت کا اظہار ہوجائے ،ہم سے تھوڑے سے کسی کمال کا اظہار ہوجائے تو ہم پھولے نہیں سماتے جابجا اس کا تذکرہ ہم نے یہ کردیا، ہم نے یہ کردیا، ہم ایسے ہیں ،ہم ویسے ہیں، لیکن ذوالقرنین کیا

کہتے ہیں؟ میرے رب کی رحمت کا نتیجہ ہے ،کیوں ہوا اس کی وجہ کیا ہے اس کا سبب کیا ہے؟بھائی اس لئے کہ دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت موجزن ہے ،محبت کا نتیجہ ہے، جس کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ہوگی وہ ہر ملنے والی خیر کی نسبت اپنی محنت اوراپنے کمال کی طرف نہیں کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *