حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جب رزق کی تنگی کا سامنا ہوتو؟
تمام بندوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہترین شخص وہ ہے ، جس نے اپنی عقل کو زندہ کیا اور خواہشات نفس کو مار ڈالا اور آخرت کی اصلاح کےلیے نفس کو تکلیف میں رکھا۔ جو شخص تقد یر الہی ٰ پر راضی رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملنے والی ہر نعمت کا شکر ادا کرتا ہے۔ دولت مندی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار رہو اور تنگی دستی وسختی کی حالت میں یہ حق ہے کہ اس کی تقدیر پر راضی رہو اور مصائب کے نزول پر صبر کرو۔
تین صفات ایسی ہیں جو اگر کسی میں پائی جاتیں تو دنیا و آخرت کی بہترین اس کا مقدر بنے گی: ایمان، اخلاص عمل ، صبر و یقین اور رضا بالقضا یعنی تقدیر خداوندی پر راضی رہنے کا نا م ہے۔ جب تمہیں کشادہ رزق میسر ہوتو اسے وسعت کے ساتھ خرچ کیا کرو، اور جب رزق کی تنگی کا سامنا ہو تو سخی بن جاؤ، اورجب کسی کو کھانا کھلاؤ ، تو پیٹ بھر کر کھلاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت نجات کا عمدہ ذریعہ ہے اور اس کے لیے دوستی رکھنا بہت قریبی رشتہ ہے۔
تقد یر ہوشیاری پر غالب آجاتی ہے۔ مومن کی خوشی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت سے حاصل ہوتی ہے ۔ اور اپنے گن اہ اور مصیبت سے وہ رنج وغم میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا یہ ہے کہ بندہ اس کی تقدیر پر راضی ہو۔ اللہ تعالیٰ کاثواب اس کے فرمانبرداروں کے لیے اور اس کا عذاب اس کے نافرمانوں کےلیے ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: شریف کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی اس کیساتھ سختی کرتا ہے تو وہ سخت ہوجاتا ہے اور جب کوئی اس کے ساتھ نرمی سے بات کرے تو وہ نرمی سے جواب دیتا ہے، اور کمینے کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی اُس کے ساتھ نرمی سے بات کرے تو اُس کا جواب سختی سے دیتا ہے اور سختی سے بات کرنے والے کے سامنے ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔
بقول ڈاکٹر اقبال ( ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم بزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن)۔مولا علی علیہ السلام نے فرمایا:جب کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کے عیب کی تلاش میں رہتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ اُسے اُس کا کوئی نہ کوئی عیب مل ہی جاتا ہے۔ شیر خُدا کا فرمان ہے: جو شخص جان بوجھ کر گمراہی کا راستہ اختیار کرے اُسے کوئی راہ راست پر نہیں لا سکتا۔حیدر کرار نے فرمایا:کبھی اچانک تمام کام درست ہو جاتے ہیں اور کبھی طلبگار ناکام رہتا ہے اور میں نے اللہ کو اپنے ارادوں میں ناکامی سے پہچانا۔ خیبر شکن مولا علی کا فرمان ہے:جب کسی شخص کا علم اُس کی عقل سے زیادہ ہوجاتا ہے
تو وہ علم اُس کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔علم کے شہر کے کے دروازے سے اعلان ہُوا۔ صدق یقین کے ساتھ سوئے رہنا اُس نماز سے کہیں بہتر ہے جس کے پڑھنے میں یقین شامل نہ ہو۔امام علی کا فرمان ہے۔جب عقل کامل ہو جائے تو کلام کم ہوجاتا ہے اور آدمی اکثر صیح بات کرتا ہے۔ایک شخص نے جناب علی کرم اللہ وجہہ سے سوال کیا۔انسان مختار ہے یا مجبور۔ آپ نے جواب دیا اپنی ایک ٹانگ اُٹھاو اُس شخص نے اپنی ٹانگ اُٹھائی تب آپ نے کہا اب دوسری بھی اُٹھاو، وہ بولا میں اس سے مجبور ہُوں تو آپ نے فرمایا یہی مثال مختار اور مجبور کی ہے۔
Leave a Reply