سینیئر صحافی نے اصل کہانی بتا کر لڑکی کے ماں باپ کو مشورہ بھی دے دیا
نامور کالم نگار نجم ولی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔میں حیران ہوں کہ ہمارا پورا میڈیا ایک ایسی لڑکی کے پیچھے کیوں پاگل ہو رہا ہے جس کے والدین سوشل میڈیا کے اس دور میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے۔ یہ معاملہ اس سے زیادہ کیا ہے
کہ ایک لڑکی ایک انٹرنیٹ کے ذریعے ایک لڑکے کے ساتھ یاری لگاتی ہے اور خاندان کی عزت کی پروا کئے بغیر گھر سے فرار ہوجاتی ہے، اس لڑکے کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ دعا زہرہ کی فیملی کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہےکہ وہ کسی خاندان کے پاس پہنچی،وہ لڑکا لفنگا نہیں نکلا اور لڑکی کا سودا اپنے دوستوں کے ذریعے کسی عزت فروش گروہ سے نہیں کر دیا یا وہ اس دوران کسی ایسے شخص کے ہتھے نہیں چڑھ گئی جو اسے اس کی مرضی کے بغیر استعمال کر کے ایسے پھینک دیتا جیسے کوئی جوس پی کے ڈبہ کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتا ہے۔ہم سب شام کے اخبارات کی خبروں کی طرح سنسنی چاہتے ہیں یا ان کہانیوں کی طرح جو کبھی ’کار شلوار اوردوپٹہ‘ جیسے عنوانوں سے چھپا کرتی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے بہت سارے پیشہ ور صحافی بھی محض یوٹیوب پر کلکس کے لئے ایسی ویڈیوز جرنلزم کے نام پر بناتے ہیں کہ بھائی نے بہن کے ساتھ یا باپ نے بیٹی کے ساتھ کیا کیا، مگر ایک منٹ ٹھہرئیے، ہمیں صحافیوں اور یوٹیوبرز سے پہلے اس کیس کے اصل مجرموں پر بات کرنی چاہئے جو دعا زہرہ کے والدین ہیں۔ وہ اپنی بیٹی کی معصومیت کی گواہی اس طرح دیتے ہیں کہ اس کے پاس صرف ایک ٹیب تھا، اس میں کوئی سم ہی نہیں تھی۔ میرا سوال ہے کہ اگر آپ کے پاس انٹرنیٹ اور فون موجود ہے تو پھر کسی دوسرے سے رابطے کے لئے موبائل سم کی ضرورت کیا ہے۔
فیس بک، انسٹا، ٹوئیٹر اور سنیپ چیٹ ہی نہیں بلکہ پب جی، لڈو اور اس طرح کی دوسری گیمز بھی آپ کو میسجینگ کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ دعا زہرہ کی ماں اپنی بیٹی سے دوستی کرنے اور اس کا باپ اسے اچھے مستقبل کی راہ دکھانے میں ناکام رہا۔ یہ بچی مجھے ان ہزاروں، لاکھوں بچیوں جیسی لگتی ہے جنہیں اپنے گھر سے زیادہ دوسروں کے گھر اور اپنے خاندان سے زیادہ دوسرے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ بچوں کی اس نفسیات میں ان والدین کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے جو اپنی دنیا میں مست ہوتے ہیں۔ میں نے دعا زہرہ کے والدین کے بارے جو دیکھا اور سنا ہے، معذرت کے ساتھ اور انتہائی محتاط الفاظ میں، وہ انتہائی غیر ذمے دار، شرم سے عاری اور شہرت کے بھوکے لوگ ہیں، ایسے واقعات کے بعد ماں باپ اپنے منہ چھپاتے پھرتے ہیں مگر وہ اسے اپنی مشہوری کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ میں نے اس شخص کی تصویر دیکھی جو حاجیوں کی روانگی کے موقعے پر دعا کے لئے پوسٹر پکڑے کھڑا تھا، آہ، بیٹی کے بھاگ جانے پر شہرت کے حصول کا یہ کیا سستا اور تھرڈ کلاس طریقہ ہے۔ہاں، ہمارے صحافی اور یوٹیوبرز بھی اس میں حصے دار ہیں مگر وہ تو بہتے دریا میں سے اپنا حصہ لے رہے ہیں کہ اگر اس لڑکی کے والدین نہ چاہتے تو وہ ان کو اپنی سکرینوں پر کیسے بیچ رہے ہوتے۔ عوام کو سنسنی چاہئیے، بڑی بڑی خبریں چاہئیں مگر مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب ایک خاتون پروڈیوسر نے مجھے سے
کہا کہ آپ نے دعا زہرہ پر پروگرام نہیں کیا، فلاں اینکر نے کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اس کے غائب ہونے کے پیچھے گروہ ہے۔ مجھے اس کی بات سن کر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ دعا زہرہ کے والدین اسے ایک فرقہ وارانہ ایشو بنانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ مجھے اس بات پر وہ عینک والا قیامت فروش صحافی یاد آ گیا جس نے قصور کی معصوم زینب کو نشانہ بنانے والے عمران کے حوالے سے بڑے بڑے ثبوتوں کے دعوے کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس واقعے کے پیچھے انٹرنیشنل ریکٹ ہے۔ جب اس وقت کے چیف جسٹس نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا تو وہ صحافی وہاں اسی طرح اپنی بات ثابت کرنے میں ناکام رہا تھا جس طرح آج ہمارے بیشتر چھوڑو یوٹیوب صحافی ناکام رہتے ہیں۔ مجھے افسوس تو اس بات کا ہے ہمارے بہت بڑے بڑے معتبر نام بھی غیر ذمے داری اور سنسنی خیزی کے اس سیلاب میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کی فرسٹریشن ختم کرنے کے لئے بڑی بڑی خبریں اور بڑے بڑے الزامات درکار ہیں، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اسی عوامی نفسیات کا فائدہ اٹھایا ہے۔ میں نہ گروہوں کے ہونے سے انکار کرتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ سازشیں نہیں ہوتیں مگر ہر واقعہ نہ گروہ سے جڑا ہوتا ہے اور نہ ہی وہ سازش ہوتا ہے بلکہ اسی سے نوے فیصد وہ آپ کی اپنی نااہلیاں اور ناکامیاں ہوتی ہیں جنہیں دوسروں کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔میں یہ بھی نہیں کہتا کہ
ہماری آج کی نسل زیادہ گمراہ اور بدکردار ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب ہمارے نوجوانوں کے پاس بھی رابطے کے بہت سارے ذرائع موجود ہیں ورنہ یہ واقعات اس وقت بھی ہوتے تھے جب نہ انٹرنیٹ تھا اور نہ ہی موبائل فون اور اس وقت بھی لڑکیاں اسی طرح گھروں سے بھاگتی تھیں۔ فطرت نے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لئے بے پناہ کشش رکھی ہے اور یہی خدا کی طرف سے بشر کے لئے بڑے امتحانات میں سے ایک امتحان ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں بہت سارے دعا زہرائیں آسانی کے ساتھ رابطوں میں آجاتی ہیں بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ میں عورتوں اور مردوں کو یکساں طور پر ایک دوسرے کی طرف راغب ہونے والا سمجھتا ہوں اور یوں بھی ہوتا ہے کہ لڑکیاں خود پہلے رابطہ کرتی ہیں، حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ آپ کسی پولیس افسر سے پوچھ لیجئے جو ایسے معاملات کو ڈیل کرتا ہو کہ اب ایسے واقعات آٹے میں نمک کے برابر رہ گئے ہیں کہ کسی حوصلہ افزائی یا تعلق کے بغیر کسی لڑکی کو ساتھ لے جایا جا سکے۔ مرد اور عورت میں فرق صرف یہ ہے کہ مرد نتائج کے حوالے سے غیر محتاط ہوتا ہے لہٰذا وہ ہر من کو بھانے والی ہر لڑکی پر ڈورے ڈالنے شروع کر دیتا ہے مگر عورت مخصوص خاندانی، سماجی اور معاشی معاملات کی وجہ سے غیر معمولی محتاط ہوتی ہے اور صرف وہاں پیش قدمی کرتی ہے جہاں اسے اعتماد ہوتا ہے کہ اسے نقصان نہیں ہو گا، ہاں ، کبھی کبھی یہ اعتماد سراب بھی ثابت ہوتا ہے۔اب معاملے کا حل کیا ہے، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دعا زہرہ کے والدین سپریم کورٹ تک پہنچ کر اپنے حق میں کوئی انقلابی فیصلہ کروا لیں گے اوراس کے نتیجے میں لڑکیاں بہت محفوظ ہوجائیں گی تو یہ آپ کی خام خیالی ہے، ہاں، وہ اپنی شہرت کے دیوانی خواہش کی مزید تسکین ضرور کر لیں گے۔ اس کا حل وہی ہے جسے اسلام اور لبرلز تک سب مانتے ہیں کہ جب لڑکی ہی راضی نہیں تو پھر یہ سب ظلم، جبر اور ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر شناختی کارڈ کے لئے تو بلوغت کی عمر ہو سکتی ہے مگر آپ چودہ، پندرہ سال کی لڑکیوں کی جوانی اور اس کے تقاضوں سے کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ آپ اگر اپنی بیٹی کی تربیت اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے میں ناکام رہے ہیں تو اپنے گھر کو مزید تماشا نہ بنائیں، الزام تراشیوں اورڈرامے بازیوں کے بجائے معاملات کو باعزت لوگوں کی طرح صبر، تحمل اور سنجیدگی سے طے کریں۔
Leave a Reply