ماں باپ کی قدر کرو ایک بہت ہی زبردست تحریر
ایک شخص ایک دن جب اپنے گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی اس کے چھوٹے سے بچے کے چھوٹے سے بستر پر اس کے ساتھ ہی لیٹی تھی۔ وہ شخص حیران ہوا اور بولا کہ اگر آرام کرنا ہے تو اپنے بستر پر لیٹ جاتیں۔ یہاں تو اور ہی تھک گئی ہوگی۔ اس کی بیوی اٹھ بیٹھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
شوہر پریشان ہوگیا۔ بیوی نے پوچھنے پر بتایا کہ صبح وہ کچھ امداد دینے کسی یتیم خانے گئی تھی۔ وہاں اس نے دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے سے بچے جو ابھی کچھ مہینوں کہ ہی تھے، اپنے پنگھوڑوں میں چپ چاپ تمیز سے لیٹے ہوئے تھے۔ وہ بہت خوش ہوئی اور وہاں موجود نگران خاتون سے پوچھا کہ آپ نے ان چھوٹے چھوٹے سے بچوں کی اتنی شاندار تربیت کیسے کی؟ آپ مجھے بھی مشورہ دیں۔ میرا بھی ایک چھوٹا بچہ ہے۔ اس نگران خاتون نے جواب دیا کہ ہم دعا کریں گے کہ آپ کا بچہ کبھی تمیزدار نہ ہو اور خدا اس کے لئے آپ لوگوں کو زندہ رکھے۔ یہ بچے جب یہاں آتے ہیں تو شروع کے دنوں میں بھوک لگنے پر اور ڈائپر خراب ہونے پر روتے ہیں۔ مگر ہمارا عملہ اتنا نہیں کہ بچوں کو انفرادی توجہ دے سکیں تو ہم انہیں رونے دیتے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں انہیں عادت ہوجاتی ہے کہ یہاں ان کے رونے سے ان کی حاجت روائی نہیں ہوگی۔ کھانا ہو یا ڈائپر تبدیل کرنا۔ ہنگامی صورتحال کے علاوہ ہر چیز مقررہ وقت پر ہی انجام پاتی ہے۔ جب وہ یہ بات سمجھ لیتے ہیں تو ان کا رونا کبھی کم اور عموما بلکل ختم ہوجاتا ہے۔
یہ بچے بھی اگر اپنے والدین کے ساتھ ہوتے تو بھوک لگنے پر، ڈائپر گندا ہونے پر، جذباتی قربت کے لئے یا کسی ایسے مسئلے کے حل کے لئے جسے ان کے ننھے ذہن سمجھنے سے قاصر ہیں، رو رو کر اپنے والدین کی توجہ خود پر مبذول کراتے۔ ان کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کے محبت کی نرمی اور گود کی گرمی کو محسوس کرتے۔ مگر کیونکہ ایسا نہیں ہے اور ہم خود بہت مجبور ہیں۔ تو ہم انہیں رونے دیتے ہیں۔ کچھ دن بعد یہ خود ہی تھک کر چپ ہوجاتے ہیں۔ اور اسی لیے جب سے وہ عورت وہاں سے آئی تھی اپنے بچے کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔“
اللّٰه ہر اولاد پر اُسکے والدین کا سایہ سلامت رکھے آمین
Leave a Reply