ایک رلا دینے والی کہانی
ایک گرلز کالج میں سرکاری تفتیشی کمیٹی آئی اور کالج کے سارے کلاس میں گھوم گھوم کر لڑکیوں کے بیگ کی تلاشی کرنے لگی ایک ایک لڑکی کے بیگ کی تلاشی لی گئی ، کسی بھی پرس میں کتابیں، کاپیاں اور لازمی اوراق کے علاوہ کوئی ممنوع چیز نہیں پائی گئی ،البتہ ایک آخری کلاس باقی رہ گئی تھی ۔
تفتیشی کمیٹی ہال میں داخل ہوئی اور ساری لڑکیوں سے گذارش کی کہ تفتیش کے لئے اپنا اپنا پرس کھول کر سامنے رکھیں ،
ہال کے ایک کنارے ایک طالبہ بیٹھی تھی اس کی پریشانی بڑھ گئی وہ تفتیشی کمیٹی پر پرشانی سے نگاہ ڈال رہی تھی ،اور شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی ،اس نے اپنے پرس پر ہاتھ رکھا ہوا تھا تفتیش شروع ہو چکی ہے اس کی باری آنے ہی والی ہے ، لڑکی کی پریشانی بڑھتی ہی جا رہی ہے ، چند منٹوں کے بعد لڑکی کے پرس کے پاس تفتیشی کمیٹی پہنچ گئی ، لڑکی نے پرس کو زور سے پکڑ لیا گویا وہ زبان حال سے کہنا چاہتی ہو کہ آپ لوگ اس پرس کو ہرگز کھول نہیں سکتے ، اس سے کہا جا رہا ہے پرس کھولو ! اس نے پرس کو سینے سے چمٹا لیا ،تفتیشی افسر نے کہا پرس ہمارے حوالے کرو ۔لڑکی زور سے چلا کر کہا نہیں میں نہیں دے سکتی ، پوری تفتیشی کمیٹی اس لڑکی کے پاس جمع ہو گئی ، سخت بحث و مباحثہ شروع ہو گیا ہال کی ساری طالبات پریشان ہیں کہ آخر راز کیا ہے۔!!!؟؟؟ حقیقت کیا ہے۔!!!؟؟؟
بالآخر لڑکی سے اس کا پرس چھین لیا گیا ، ساری لڑکیاں خاموش۔۔۔۔۔لکچر بند۔۔۔۔۔ہر طرف سناٹا چھا چکا ہے ،پتہ نہیں کیا ہوگا۔۔۔۔۔پرس میں کیا چیز ہے؟؟؟ تفتیشی کمیٹی طالبہ کا پرس لئے کالج کے آفس میں گئی ، طالبہ آفس میں آئی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہورہی تھی سب کی طرف غصے سے دیکھ رہی تھی کہ بھرے مجمع کے سامنے اسے رسوا کیا گیا تھا ، اسے بٹھایا گیا ، کالج کی ڈائریکٹر نے اپنے سامنے پرس کھلوایا ، طالبہ نے پرس کھولا ، یا اللہ ! کیا تھا پرس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
آپ کیا گمان کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!؟؟؟ پرس میں کوئی ممنوع چیز نہ تھی ، نہ ہی فحش تصویریں تھی ،واللہ ویسی کوئی چیز نہ تھی۔۔۔۔۔۔اس میں روٹی کے چند ٹکڑے تھے ،اور استعمال شدہ سینڈوچ کے باقی حصے تھے ، بس یہی تھے اور کچھ نہیں ۔ جب اس سلسلے میں اس سے بات کی گئی تو اس نے کہا : ساری طالبات جب ناشتہ کر لیتی ہیں تو ٹوٹے پھوٹے روٹی کے ٹکڑے جمع کر لیتی ہوں جس میں سے کچھ کھاتی ہوں اور کچھ اپنے اہل خانہ کے لئے لے کر جاتی ہوں جی ہاں ! اپنی ماں اور بہنوں کے لئے۔۔۔تاکہ انہیں دوپہر اور رات کا کھانا میسر ہوسکے۔۔۔ہم تنگ دست ہیں ہماری کوئی کفالت کرنے والا نہیں ، ہماری کوئی خبر بھی نہیں لیتا ۔ اور پرس کھولنے سے انکار کرنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ مبادا میری کلاس کی سہیلیاں میری حالت کو جان جائیں اور مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے ۔ میری طرف سے جو تفتیشی کمیٹی کے تئیں بے ادبی ہوئی ہے میں آپ سب سے معافی کی خواستگار ہوں۔
یہ دلدوز منظر کیا تھا کہ سب کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
حاصل کلام:- بھائیو اور بہنو! یہ منظر ان مختلف المناک مناظر میں سے ایک ہے ، جو ممکن ہے ہمارے پڑوس میں ہو اور ہم اسے نہ جانتے ہوں ، یا بسا اوقات ایسے لوگوں سے نظریں اوجھل کئے ہوئے ہوں۔ ’’یہ ایک جھلک ہے جو ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر دیکھنے کو ملے گی‘‘‘جسکا حل بھی ہمی کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ پاک ہر شخص کو ایسی مجبوری سے بچائے ۔اور ایسے برے دن کسی کو نہ دیکھنے پڑیں ۔۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
Leave a Reply