خوبصورت جذبہ
ایک دن میں امی ابو کے ساتھ ریسٹورنٹ کهانا کهانے گیا، وہاں ہمارے علاوه ایک جوان زوج اور ایک ستر اسی سالہ میاں بیوی بیٹهے تھے۔ ہم سب نے اپنے اپنے کھانوں کا آرڈر دے دیا اور کهانے کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک اور صاحب ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے۔ تهوڑی دیر میں ان صاحب کا فون بجا اور زور زور سے باتیں کرنے لگے، انکے فون کی آواز اتنی آہستہ تھی کہ مجھے سنائی تک نہ دی۔
وه فون بند کر کے زور زور سے کہنے لگے کہ آج آٹھ سال کے بعد میرے گھر بیٹا ہوا ہے اور اس خوشی میں، میں سب کو تندوری ران کھلاؤنگا۔ میں اپنی جگہ سے اٹها اور آگے جا کر انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ ہم نے اپنے کھانوں کا آرڈر دے دیا ہے، یہ سنتے ہی اس نے کہا اچها چلو میں تمہارے کهانوں کا بل بھرونگا، اور بل بھر کر اپنا کھانا پیک کرکے چلا گیا۔
چند دن بعد میں اپنے دوستوں کے ہمراه سینما گیا، کہ اچانک میری نظر اسی شخص پر پڑی جو ایک پانچ سال کے بچے کے ساتھ ٹکٹ لے رہا تھا، میں اپنے دوستوں سے کچھ لمحے کے لئے دور ہوا اور اس شخص کے پاس پہنچا، جونہی اس نے مجھے دیکھا اس کے چہرے پر میں نے عجیب تاثر کا احساس کیا، بہرحال سلام دعا کے بعد میں نے کہا کہ ماشاالله آپکا بیٹا چند دنوں میں اتنا بڑا ہوگیا. جونہی اس نے یہ الفاظ سنے کہا چھوڑو ان باتوں کو، جب اس نے یہ کہا تو میرا تجسس اور بڑھ گیا اور میں نے اصرار کیا کہ وه مجهے حقیقت بتائے، بہت اصرار پر اس نے بتایا کہ اس دن جب وه ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو میرے ہاتھ گندھے تھے، میں ہاتھ دھونے کے لئے گیا، اور ہاتھ دھوتے وقت میں نے اس بوڑهے اور بڑهیا کی آواز سنی کہ بڑهیا کہہ رہی تھی تندوری ران کھاتے ہیں تو اس پر بوڑھے نے کہا کہ پورے مہینے کے لئے میرے پاس صرف ہزار روپے ہیں اگر تندوری ران کهائیں گے تو پورے مہینے گزارا کیسے ہوگا۔۔؟ آج بھی صرف تمہاری وجہ سے ہم ہوٹل آئیں ہیں۔ اس نے کہا کہ اسی وجہ سے میں نے یہ ڈراما کیا۔ میں نے سوال کیا کہ صرف انہی کے پیسے دے دیتے، تو انھوں نے جواب دیا میں انکی بے عزتی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ سن کر میں نے ان سے خدا حافظ کرلی۔
سبق:- ہم اپنے لئے تو ہمیشہ خرچ کرتے ہی ہیں مگر جب کبھی دوسرے مجبور کیلئے خرچ کرتے ہیں تو انکی خوشی میں جو خوشی حاصل ہوتی ہے اسکا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
Leave a Reply