ایک خوبصورت نصیحت
مولانا رومی رح فرماتے ہیں کہ ایک شیریں زبان آدمی رات کو دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر درزیوں کے بارے میں مزےدار قصے سنا رہا تها، داستان گو اتنی معلومات رکهتا تها کہ باقاعدہ اچها خاصا درزی نامہ مرتب ہوسکتا تها ، جب اس آدمی نے درزیوں کی چوری اور مکاری سے گاہکوں کا کپڑا غائب کردینے کے ان گنت قصے بیان کرڈالے ، سننے والوں میں ملک خطا کا ایک ترک جسے اپنی دانش و ذہانت پر بڑا ناز تها کہنے لگا، ”اس علاقے میں سب سے گرو درزی کونسا ہے؟ داستان گو نے کہا :
”یوں تو ایک سے ایک ماہر فن اس شہر کے گلی کوچوں میں موجود ہیں ، لیکن پورش نامی درزی بڑا فنکار ہے ، اس کے کاٹے کا منتر ہی نہیں ، ہاتھ کی صفائی میں ایسا استاد کہ کپڑا تو کپڑا آنکهوں کا کاجل تک چرالے اور چوری کا پتہ نہ لگنے دے، ترک کہنے لگا: لگا لو مجھ سے شرط میں اس کے پاس کپڑا لے کر جائوں گا ، اور دیکهوں گا کہ وہ کیونکر میری آنکهوں میں دهول پهونک کے کپڑا چراتا ہے، میاں کپڑا تو درکنار ایک تار بهی غائب نہ کرسکے گا “۔ دوستوں نے جب یہ سنا تو کہنے لگے “ارے بهائی ذیادہ جوش میں نہ آ ، تجھ سے پہلے بهی بہت سے یہی دعوی کرتے آئے اور اس درزی سے چوٹ کها گئے، تو اپنی عقل و خرد پر نہ جا، دهوکا کهائے گا”، محفل برخاست ہونے کے بعد ترک اپنے گهر چلا گیا اسی پیچ و تاب اور فکر و اضطراب میں ساری رات گزاری صبح ہوتے ہی قیمتی اطلس کا کپڑا لیا اور پورش درزی کا نام پوچهتا پوچهتا اس کی دکان پر پہنچ گیا ، درزی اس ترک گاہک کو دیکهتے ہی نہایت ادب سے کهڑا ہوکر تسلیمات بجا لایا، درزی نے خوش اخلاقی و تعظیم و کریم کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ترک بےحد متاثر ہوا ، دل میں کہنے لگا یہ شخص تو بظاہر ایسا عیار اور دغاباز نظر نہیں آتا ، لوگ بهی خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں، یہ سوچ کر قیمتی اطلس درزی کے آگے دهر دی اور کہنے لگا “اس اطلس کی قبا مجهے سی دیں۔”درزی نے دونوں ہاتھ ادب سے اپنے سینے پر باندهے اور کہنے لگا، “حضور قبا ایسی سیوں گا جو نہ صرف آپ کے جسم پر زیب دے گی بلکہ دنیا دیکهے گی، اس نے کپڑا گز سے ناپا پهر کاٹنے کے لئے جابجا اس پر نشان لگانے لگا ،ساتھ ہی ساتھ ادهر ادهر کے پرلطف قصے چهیڑ دیئے ہنسنے ہنسانے کی باتیں ہونے لگیں جن میں ترک کو بےحد دلچسپی ہوگئی، جب درزی نے اسکی دلچسپی دیکهی تو ایک مزاحیہ لطیفہ سنایا جسے سن کر ترک ہنسنے لگا اس کی چندهی چندهی آنکهیں اور بهی مچ گئیں درزی نے جهٹ پٹ کپڑا کاٹا اور ران تلے ایسا دبایا کہ سوائےخدا کی ذات کے اور کوئی نہ دیکھ سکا،
غرض کی اس پرلطف داستان سرائی میں ترک اپنا اصل مقصد اور دعوی فراموش کر بیٹها ، کدهر کی اطلس ، کہاں کی شرط، ہنسی مذاق میں سب سے غافل ہوگیا، ترک درزی سے کہنے لگا درزی سے کہنے لگا ایسی ہی مزیدار کوئی اور بات سناؤ ، درزی نے پهر چرب زبانی کا مظاہرہ کیا ، ترک اتنا ہنسا کہ اس کی آنکهیں بالکل بند ہوگئیں، ہوش و حواس رخصت ، عقل و خرد الوداع، اس مرتبہ درزی نے پهر کپڑا کاٹ کر ران تلے دبا لیا ، ترک نے چوتهی بار مذاق کا تقاضا کیا تو درزی کو کچھ حیا آگئی اور کہنے لگا، مزید تقاضا نہ کر اگر ہنسی کی اور بات کہوں گا تو تیری قبا تنگ ہوجائے گی، مولانا رومی رح نصیحت فرماتے ہیں کہ جانتے ہو وہ ترکی کون تها ،دغاباز درزی کون تها ؟؟ اطلس کیا ہے اور ہسنی مذاق کیا ہے ؟؟ قینچی کیا ہے اور قبا کیا چیز ہے ؟؟ سنوں وہ غافل ترک تیری ذات ہے جسے اپنی عقل و خرد پر بڑا بهروسہ ہے، وہ عیار دهوکہ باز درزی یہ دنیائے فانی ہے، ہنسی مذاق نفسانی جذبات ہیں، تیری عمر اطلس پر دن رات درزی کی قینچی کی مانند چل رہے ہیں دل لگی کا شوق تیری غفلت ہے، اطلس کی قبا تجهے بهلائی اور نیکی کے لئے سلوانی تهی، وہ فضول مذاق اور قہقہوں میں تباہ و برباد ہوگئی، اے عزیز ! اپنے ہوش و حواس درست کر ظاہر کو چهوڑ ، باطن کی طرف توجہ کر ، تیری قیمتی عمر کی اطلس لیل و نہار کی قینچی سے دنیا کا مکار درزی ٹکڑے ٹکڑے کر کے چرائے جارہا ہے اور تو ہنسی مذاق میں مشغول ہے……!!!
Leave a Reply