وہ ایک بہت بڑی کمپنی تھی
وہ ایک بہت بڑی کمپنی تھی جہاں کا سی ای او آج فرش پر بکھرے چند کاغذ اٹھا رہا تھا۔ تمام ملازمین دم سادھے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ شاید اس غفلت پر ابھی کسی نہ کسی کو عتاب کا نشانہ بنایا جائے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
سی ای او نے راہداری میں پڑے کاغذوں کے ٹکڑے اٹھائے، انھیں پاس رکھے ڈسٹ بن میں پھینکا اور ہاتھ جھاڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
منظر تبدیل ہوا۔ ایک سکول کا ہیڈ ماسٹر ہاتھ میں بوٹ پالش اور برش لیے کلاس کے باہر بیٹھ گیا اور کلاس میں آنے والے ان بچوں کے جوتے پالش کرنے لگا جنہوں نے جوتے پالش نہیں کیے ہوئے تھے۔ اردگرد کے لوگ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
کئی ایک نے تو جرأت کرکے پوچھ بھی لیا کہ سر آپ یہ کیا کررہے ہیں؟ تو ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ بس آپ 2 دن مجھے یہ کرنے دیں، تیسرے دن کلاس تو کیا پورے اسکول میں ڈسپلن ہوگا۔ اب یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ سی ای او کے آفس میں کاغذ تو کیا ایک تنکا تک دکھائی نہ دیا اور اسکول میں بچے بھی چمکدار جوتوں کے ساتھ آنے لگے۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں اپنے اندر بہت سے معنی پوشیدہ رکھتی ہیں اور دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنے اردگرد ایسے قابل تقلید افراد یا رول ماڈل کم ملتے ہیں جو اپنے عمل سے ہمیں یہ بتا سکیں کہ درست اور غلط کیا ہے؟
ہم میں سے آج تک کسی کو ہاتھی نے نہیں کاٹا لیکن چیونٹی کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اس کا کاٹے بغیر گزارا نہیں۔ ہاتھی اپنی جسامت کے باوجود بھی ہمیں اس طرح فوری نقصان نہیں پہنچا سکتا جس طرح ایک چیونٹی ہمیں کوفت میں مبتلا کردیتی ہے، یعنی چھوٹی چیز کا بہت اثر ہوتا ہے۔
Leave a Reply