جیسی کرنی ویسی بھرنی
کسی شہر میں ایک سکھ تھا‘ وہ بوڑھا ہوگیا اور بیٹا جوان ہوگیا‘ بوڑھے کو دمے کا مرض لاحق ہوگیا‘ اب رات ہوتے ہی دمے کا شدید زور ہو جاتا ‘ کھانسی اور بلغم نکلنا شروع ہو جاتا۔ چنانچہ ساری رات یہ سلسلہ جاری رہتا‘ وہ بیچارہ خود بھی پوری رات جاگتا اور شور کی وجہ سے دوسرے بھی جاگتے۔
بیٹا سارا دن کام سے تھکا ہارا ہوتا ‘ بار بار نیند اکھڑتی تو بہت تنگ ہوتا‘ آخر پھر سوچتا کہ کوئی بات نہیں باپ ہے‘ لیکن رفتہ رفتہ جب دیکھا کہ روز کا ہی قصہ ہے‘ نہ تو یہ مرتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے‘ یہ تو ساری رات جگاتا ہی ہے‘ ایک دن اس کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس کا کام ختم ہی کر دوں ‘ قریب میں ایک دریا بہتا تھا‘ ایک دن اس نے اپنے بوڑھے باپ کو کندھوں پہ اٹھایا اور دریا کی طرف چل دیا‘ اب باپ خاموش کچھ نہیں بول رہا کہ کہاں لے جارہے ہو اور کیوں لے جارہے ہو؟ بیماری کی وجہ سے ویسے ہی سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا‘ مقابلے کی سکت نہیں تھی اور دل کا چور جانتا تھا جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
چنانچہ جیسے ہی بیٹا دریا میں اترا اور پانی پنڈلیوں تک آیا اور پھینکنے کا ارادہ کیا تو باپ نے کہا: بیٹا ذرا اس جگہ سے ہٹ کر فلاں جگہ پہ مجھے پھینک دے ‘ یہاں مت پھینک‘ بیٹے نے کہا: یہاں میں اور وہاں میں کیا فرق ہے؟ یہاں بھی پانی ہے وہاں بھی پانی ہے‘ باپ نے کہا بس میری خواہش ہے بیٹے نے کہا پہلے مجھے بتاؤ اس میں کیا راز ہے پھر پھینکوں گا‘ باپ کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے بھی اپنے باپ کو یہیں پھینکا تھا۔
بیٹا سمجھدار تھا ‘ کہنے لگا اچھا تو یہ بات ہے‘ فوراً دریا سے نکلا اور سیدھا واپس اپنے گھر گیا‘ جا کر باپ کا کمرہ صاف کیا‘ بستر کو دھویا‘ چادر بدلی اور صبح جب ہوئی تو اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا‘ دوا دلوائی اور بقیہ زندگی خوب اس کی خدمت کی۔
ماخوذ:- اولاد کی تربیت کیسے کریں۔
سبق:- انسان اپنی زندگی میں جوگناہ کرتاہے اللّٰه تعالیٰ اسے ان گناہوں کا احساس کبھی نہ کبھی ضرور دلاتا ہے، اسلئے ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے بزرگوں کیساتھ اچھا سلوک کریں تاکہ اس سے متاثر ہوکر ہماری اولاد بھی ہم سے ویسا ہی سلوک کرے۔
Leave a Reply