جب انسان برائی کرتا ہے تو 5نشانیاں اس کی زندگی میں نظر آجاتی ہیں
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے برائی جب انسان کرتا ہے تو پانچ نشانیاں اس کی زندگی میں ہی اسے نظر آجاتی ہیں ۔چہرے پر بے رونقی ،چہرہ اُڑا اُرا ہے سیاہیاں پھیل گئی ہیں اور اداسی چھائی ہوئی ہے مرجھایا ہوا چہرہ ہے کس وجہ سے گناہوں کی وجہ سے تازگی نہیں ہے ۔
دوسری نشانی اس گناہ کی یہ ہے کہ انسان کے دل میں تاریکی آجاتی ہے ۔تاریکی کیا ہے ہر وقت گھٹن پریشانی پتہ نہیں کیا ہوگا کیا ہوگا؟وہی ہوگا جو تیرے رب نے چاہا ہے ۔تمہیں یقین کرنا چاہئے جو ہوگا وہ میرے حق میں اچھا ہوگا کیونکہ میرے رب کا فیصلہ ہوگا ۔عبداللہ ابن عباس ؓ تیسری بات بیان کرتے ہیں برائی کی وجہ سے اللہ ذوالجلال اس کے رزق کو تنگ کردیتے ہیں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی روایت بھی ہے بندہ گناہ کرتا ہے اس کے نتیجے میں اللہ ذوالجلال تہجد کی نعمت اس سے چھین لیتے ہیں اسے قیام اللیل سے محروم کردیتے ہیں ۔کچھ لوگوں کو واقعتاً مال کی تنگی آجاتی ہے گناہوں کی وجہ سے اور کچھ لوگوں کے پاس مال ہوتا ہے لیکن واویلا شکایات رونا دھونا کیا بنے گا
کیا حالات ہوگئے ہیں یہ تو منافقوں کا رویہ ہے کسی بھی چھوٹی سی چیز چھوٹی سی بات کو اپنے سر پر اٹھا لینا پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ہمارے پاس پاکستان میں بھی کچھ لوگ آجاتے ہیں پتا ہے قاری صاحب کیا ہوا ؟جی محترم کیا ہوا؟ چینی مہنگی ہوگئی ہے ارے اللہ کے بندے آپ کا رب بھی غریب ہوگیا ہے۔ پھر کیا ہوا مہنگی ہوگئی تو؟ترازو تو اللہ کے پاس ہے کسی چیزکو بڑھا دے کم کردے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو ضائع کردیں گے کیسا عقیدہ ہے جوکنوئیں سے نکال کر یوسف کو مصر کے تخت پر بٹھانے پر قادر ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمہاری مشکلات کو خوشیوں میں تبدیل کر دے ۔یوسف کا جیل سے نکلنا ہی یہ پیغام دیتا ہے
کہ جیل ہمیشہ نہیں رہتی ۔کنوئیں میں ہمیشہ انسان گرا نہیں رہتا ۔جب بادل زیادہ ہوجاتے ہیں ،گھٹائیں چھاجاتی ہیں مشکلات زیادہ ہوتی ہیں پھر بارش بھی جھوم کر پڑتی ہے پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ آسانیاں بھی اتنی ہی زیادہ دیتے ہیں اس لئے پریشان ہر وقت رہنا یہ کسی مومن کا کام نہیں ہے اس لئے غزالی کہا کرتے تھے پریشان ہونا تو انسان ہونے کی دلیل ہے اور پریشان رہنا بے ایمان ہونے کی دلیل ہے پریشانی تو انبیاء کو آئی لیکن ہمیشہ پریشان رہے؟پریشانی آئی ہے اللہ اکبر نماز شروع کرو قرآن کھول لو استغفراللہ اللہ اللہ ربی لااشرک بک شیئا لا الہ الا اللہ حسبی اللہ ونعم الوکیل یہ پیشانی جتنی زمین سے دور ہے اتنی ہی آپ کی مشکلات کا حل ہے یہ زمین پر پہنچی نہیں۔
مشکلات خوشی میں تبدیل ہوئی نہیں۔عبداللہ ابن عباس ؓ چوتھی بات کررہے ہیں انسان کا جسم وہن کا شکار ہوجاتا ہے دیکھنے میں بہت طاقتور انسان ہے لیکن طاقت کتنی ہے صبح کی نماز ہے دو سے اڑھائی کلو کا بلانکٹ اٹھا کر پیچھے نہیں کرسکتا مسجد تک نہیں جاسکتا اس کو اعرج تو لوگ نہیں کہتے لنگڑا تو لوگ نہیں کہتے لیکن اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے اس کی جسم کی صلاحیتوں کو اللہ نے سلب کر لیا اور پڑا ہے اس کو کوئی فکر نہیں اس سے تو بچے طاقتور ہیں جو آٹھ سالہ بچے ادھر آذان ہوتی ہے ادھر مسجد میں اپنے باپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یہ جوان کیسے ہے یہ طاقتور کیسے ہے ؟اس سے دو کلو کا لحاف اور کمبل اٹھا کر پیچھے نہیں کیاجاتا
اور وہ پیدل چل کر مسجد نہیں جاسکتا یہ وہن ہے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین
Leave a Reply