ترقی، انسانیت اور قدرت
ایک بار چند طلباء تفریح کے لیے ایک کشتی پر سوار ہوئے طبیعت موج پر تھی وقت سہانا تھا ہوا نشاط انگیز اور کیف آور تھی اور کام کچھ نہ تھا یہ نو عمر طلباء خاموش کیسے بیٹھ سکتے تھے جاہل ملاح دلچسپی کا اچھا ذریعہ اور فقرہ بازی مزاق وتفریح طبع کے لئے بے حد موزوں تھا چنانچہ ایک تیز طرار صاحبزادے نے اس سے مخاطب ہو کر کہا چچا میاں آپ نے کون سے علوم پڑھے ہیں
ملاح نے جواب دیا میاں میں نے کچھ پڑھا لکھا نہیں صاحبزادے نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ارے آپ نے سائنس نہیں پڑھی ملاح نے کہا میں نے تو اس کا نام بھی نہیں سنا دوسرے صاحبزادے بولے جیومٹری اور الجبرا تو آپ ضرور جانتے ہوں گے اب تیسرے صاحبزادے نے شوشہ چھوڑا مگر آپ نے جغرافیہ اور ہسٹری تو پڑھی ہی ہوگی ملاح نے جواب دیا سرکار یہ شہر کے نام ہیں یا آدمی کے ملاح کے اس جواب پر لڑکے اپنی ہنسی نہ ضبط کر سکے اور انہوں نے قہقہہ لگایا پھر انہوں نے پوچھا چچا میاں تمہاری عمر کیا ہوگی ملاح نے بتایا یہی کوئی چالیس سال لڑکوں نے کہاں آپ نے اپنی آدھی عمر برباد کی اور کچھ پڑھا لکھا نہیں ملاح بیچارہ خفیف ہو کر رہ گیا اور چپ سادھ لی قدرت کا تماشا دیکھئے کہ کشتی کچھ ہی دور گئی تھی کہ دریا میں طوفان آگیا موجیں منہ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی تھیں اور کشتی ہچکولے لے رہی تھی معلوم ہوتا تھا کہ اب ڈوبی تب ڈوبی دریا کے سفر کا لڑکوں کو پہلا تجربہ تھا ان کے اوسان خطا ہوگئے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اب جاہل ملاح کی باری آئی اس نے بڑی سنجیدگی سے منہ بنا کو پوچھا بھیا تم نے کون کون سے علم پڑھے ہیں
لڑکے اس بھولے بھالے ملاح کا مقصد نہ سمجھ سکے اور کالج یا مدرسہ میں پڑھے ہوئے علوم کی لمبی فہرست گنوانی شروع کردی اور جب وہ یہ بھاری بھر کم مرعوب کن نام گنا چکے تو اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا ٹھیک ہے یہ سب تو پڑھا لیکن کیا تیرا کی بھی سیکھی ہے اگر خدانخواستہ کشتی الٹ جائے تو کنارے کیسے پہنچ سکو گے لڑکوں میں کوئی بھی تیرنا نہیں جانتا تھا انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ جواب دیا چچا جان یہی ایک علم ہم سے رہ گیا ہے ہم اسے نہیں سیکھ سکے لڑکوں کا جواب سن کر ملاح زور سے ہنسا اور کہا میاں میں نے تو اپنی آدھی عمر کھوئی مگر تم نے تو آج پوری عمر ڈبوئی اس لئے کہ اس طوفان میں تمہارا پڑھا لکھا کام نہ آئے گا آج تیراکی ہی تمہاری جان بچا سکتی ہے اور وہ تم جانتے ہی نہیں آج بھی دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں میں جو بظاہر دنیا کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں صورت حال یہی ہے کہ زندگی کا سفینہ گرداب میں ہے دریا کی موجیں خونخوار نہنگوں کی طرح منہ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی ہیں ساحل دور ہے اور خطرہ قریب لیکن کشتی کے معزز و لائق سواروں کو سب کچھ آتا ہے مگر ملاحی کا فن اور تیراکی کا علم نہیں آتا۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے سب کچھ سیکھا ہے لیکن بھلے مانسوں شریف خدا شناسی اور انسانیت دوست انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا فن نہیں سیکھا۔
*اسی لئے آج جو لوگ اپنی ترقی، موڈرنائزیشن، لِوِنگ اوف اسٹینڈر اور ایسی ہی جدید ٹکنالوجی کے نشے میں چور ہیں اور اپنی اس ترقی پر مغرور ہیں وہ سبھی اللّٰه تعالیٰ کی ایک معمولی سی تخلیق جو دکھائی بھی نہیں دیتی کے سامنے بے یارو مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔*
اقبال نے اپنے اشعار میں اس نازک صورت حال اور اس عجیب و غریب تضاد کی تصویر کھینچی ہے جس کا اس بیسویں صدی کا مذہب اور تعلیم یافتہ فرد بلکہ معاشرہ کا معاشرہ شکار ہے۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
Leave a Reply