ایک بزرگ سے چوری
ایک بزرگ حج کے سفر پر گئے ایک جگہ سے گزر رہے تھے ان کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا‘ اس میں ان کے پیسے تھے ایک چور ان کے ہاتھ میں سے وہ تھیلا چھین کر بھاگ گیا۔ کافی دور جا کر اس کی آنکھوں کی بینائی اچانک زائل ہو گئی۔ اس چور نے رونا شروع کر دیا۔ لوگوں نے پوچھا بھائی کیا ہوا؟
کہنے لگا میں نے ایک آدمی کا تھیلا چھینا ہے وہ کوئی بڑا مقرب بندہ لگتا ہے بڑا اچھا بندہ لگتا ہے میری آنکھوں کی بنائی زائل ہو گئی ہے خدا کیلئے مجھے اس کے پاس پہنچاؤ تاکہ میں اس سے معافی مانگ سکوں۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا؟ کہنے لگا کہ فلاں حجام کی دکان کے قریب پش آیا۔ لوگ اس کو اس دکان کے پاس لے کر آئے اور حجام سے پوچھا کہ اس طرح کا آدمی یہاں سے گزرا ہے؟ آپ اسے جانتے ہو؟
اس نے کہا مجھے اس کے گھر کا تو پتہ نہیں البتہ نمازوں کیلئے وہ آتے جاتے ہیں‘ اگلی نماز کیلئے پھر آئیں گے۔ یہ لوگ انتظار میں بیٹھ گئے تواس چور نے جان کر ان کے ہاتھ پکڑ لئے کہ مجھ سے غلطی ہوئی‘ گناہ ہوا‘ نادم ہوں‘ شرمندہ ہوں‘ میری بینائی چھن گئی‘ آپ اپنے پیسے واپس لے لیجئے اور مجھے معاف کر دیجئے تاکہ اللہ تعالیٰ میری بینائی کو ٹھیک کر دے‘ وہ بزرگ کہنے لگے کہ میں نے تو تجھلے پہلے ہی معاف کر دیا ہے یہ بات سن کر چور بڑاحیران ہوا کہنے لگا‘ حضرت! میں تو آپ کا تھیلا چھین کر بھاگ اور آپ فرماتے ہیں کہ معافی مانگنے سے پہلے ہی آپ نے معاف فرما دیا‘ وہ فرمانے لگے کہ ہاں میرے دل میں کوئی بات آ گئی تھی‘ فرمانے لگے کہمیں نے ایک حدیث پڑھی جس میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا قیامت کے دن جب تک میری امت کا حساب پیش کیا جائے گا تو میں اس وقت تک میزان کے قریب رہوں گا جب تک کہ میرے آخری امتی کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ میرے دل میں یہ بات آئی کہ اگر میں نے اس چور کو معاف نہ کیا تو قیامت کے دن یہ مقدمہ پیش ہو گا اور جتنی دیر میرے اس مقدمہ کا فیصلہ ہونے میں لگے گی اللہ کے محبوبﷺ کو اتنی دیر جنت سے باہر رہنا پڑے گا اس لئے میں نے معاف کر دیا۔ نہ تو مقدمہ پیش ہو گا نہ ہی میرے محبوب کو جنت میں جانے میں دیر لگے گی
Leave a Reply