دوست کے گھر چوری
بیان کیا جاتا ہے، ایک درویش تنگ دستی میں مبتلا ہوا تو اس نے اپنے ایک دوست کے گھر سے کمبل چرا لیا اور اسے فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کر لی۔ لیکن اس کا یہ گناہ ظاہر ہو گیا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور قاضی نے مقدمے کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد اسلامی شریعت کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ ڈالنے کی سزا سنادی۔
جس شخص کا کمبل چریا گیا تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ میرے دوست کا ہاتھ کاٹا جائے گا تو وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہوا اور سفارش کی کہ قاضی صاحب ! مہربانی کر کے اسے سزانہ دیجیے۔ اس نے میرا کمبل چرایا تھا۔ میں اسے معاف کرتا ہوں۔
قاضی نے جواب دیا، تیرے معاف کر دینے سے بھی یہ شخص سزا سے نہ بچ سکے گا۔ کیوں کہ چور کو سزا دینا اسلامی شریعت کا منشا ہے۔ اس شخص نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ اسلامی شریعت میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا لیکن اگر چوری کیا جانے والا مال وقف ہو تو پھر یہ سزا نہیں دی جاسکتی ہے ہم جیسے درویشوں کا مال وقف ہوتا ہے۔ ہم اپنی کسی چیز کو بھی اپنی ملکیت نہیں سمجھتے۔
قاضی نے اس بات سے اتفاق کیا اور چور کو معاف کر دیا۔ لیکن اسے ملامت کی کہ تو نے چوری بھی کی تو اپنے ایسے شریف دوست کے گھر جس نے تجھے سزا سے بچا لیا۔
اس شخص نے فوراً جواب دیا، قاضی صاحب! آپ نے بزرگوں کا یہ قول سنا ہو گا کہ دوست کا گھر صاف کر دو لیکن دشمن کا دروازہ اس خیال سے نہ کھٹکھٹاؤ کہ وہ تمھاری مدد کرے گا۔
بُرا وقت آ پڑے تو اہل ہمت کا طریقہ ہے
اترواتے ہیں کپڑے دوستوں کے کھال دشمن کی
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ قارئین کو ایک ایسے نتیجے کی طرف لے گئے ہیں جو بظاہر اسلامی فلسفہ حیات سے ٹکراتا ہے۔ یعنی اگر انسان کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو دوستوں کے کپڑے اتروا لے اور دشمن کی کھال لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی بات اسلام فلسفہ اخلاق سے متصادم نہیں۔ دراصل انھوں نے اس حکایت میں سوالی بن کر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی مذمت کی ہے جو فلسفہ اسلام کے عین مطابق ہے۔ بہ الفاظ دیگر خود دار اور شریف لوگوں کے نزدیک بھکاری بن کر ہاتھ پھیلانا چوری کے گناہ سے بھی برا ہے۔
Leave a Reply