بادشاہ کی دانائی
پرانے زمانے میں کسی بادشاہ کے دربار میں چند درباری بادشاہ کے سامنے یہی بحث کر رہے تھے کہ عبادت کے دوران خصوصاً نماز میں شیطانی وسوسوں کی وجہ سے انسانی ذہن منتشر ہو جاتا ہے اور عبادت کا سارا اثر زائل ہو جاتا ہے۔
لیکن بادشاہ اِس بات سے انکاری تھا اور اُس کا کہنا تھا کہ اگر انسان کے شعور میں اللہ تعالیٰ کی عزت و عظمت، جنت و دوزخ کی جزا اور سزا کی ذرا سی بھی اہمیت ہو تو وہ کبھی بھی ایسے خیالات کو پیدا نہیں ہونے دے سکتا۔
آخر بادشاہ نے اُن لوگوں کو سبق سکھانے اور عملی طور پر بات کو سمجھانے کے لیے ایک ترکیب سوچی اور اُن سب کو پانی کے بڑے بڑے پیالے تھما دئیے اور محل سے ملحقہ بازار کا چکر لگانے کا حکم دیا، اور ساتھ ہی ساتھ یہ تاکید بھی کی کہ “خبردار! اگر کسی کے پیالے میں سے ایک پانی کا قطرہ بھی چھلکا۔ ورنہ اُس کا سر اُدھر ہی قلم کر دیا جائے گا۔ اور تم میں سے جو بھی کامیابی سے یہ کام سر انجام دے گا اُسے بیش قیمت انعام سے نوازا جائے گا۔۔۔!”
حکم کے ملتے ہی وہ بحث کرنے والے درباری اپنے اپنے پیالے کے ہمراہ بازار کا چکر لگانے کے لیے نکل پڑے اور اُن کے ساتھ ساتھ بادشاہ کے حکم پر ایک ایک جلاد بھی ساتھ ہو لیا کہ اگر کسی کے پیالے میں سے ایک قطرہ بھی گرے تو وہ اُدھر ہی اُس کا کام تمام کر سکیں۔
لیکن اُن سب درباریوں کے لیے حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا جب وہ سب اپنی منزل پر پانی کا ایک قطرہ گرائے بغیر بخیرو عافیت پہنچ چکے تھے۔
تب بادشاہ نے باری باری سے اُن سب درباریوں سے بازار اور اِردگرد کی چیزوں کے بارے میں پوچھا تو اُن سب کا یہی جواب تھا کہ۔۔!!
“حضور! سر قلم ہونے کا ڈر تھا اور انعام کو پانے کی چاہ تھی بس اِسی لیے ہمارا کسی دوسری طرف دھیان گیا ہی نہیں۔”
جى هاں ! اگر ہمارے دل میں بھی خدا کا خوف، جہنم کا ڈر اور جنت کی چاہ ہو تو کچھ ناممکن نہیں کہ ہم بھی اپنی عبادات کو اردگرد کی سوچوں اور شیطانی خیالوں سے پاک نہ کر سکیں..!!
Leave a Reply