ننھا مجاہد
حملہ اس قدر اچانک تھا کہ کسی کو سنبھلنے کاموقع ہی نہیں ملا پورے شہر میں حملہ آور دندناتے پھر رہے تھے۔ مسلمانوں کاجو گھر بھی سامنے آیا لوٹ لیا ، جو بچہ او ر مرد نظر آیا اسے تہ تیغ کر دیا، عورتوں کو پکڑ پکڑ کر قید کر لیا۔ کسی طرف سے کوئی مدد آنے کی توقع نہیں تھی۔ کسی میں مقابلے کی ہمت نہ تھی ۔ہر طرف لاشوں کے ڈھیر دیکھ کر جو بچ گئے تھے ان کی بھی ہمت جواب دے چکی تھی۔ عیسائی حملہ آوروں کا خوف اتنا تھا کہ کوئی منھ سے بات نکالنے کی ہمت بھی نہیں کر رہا تھا کہ کہیں جان سے ہی ہاتھ نہ دھونا پڑے۔
ان حالات میں اگر کسی نے ہمت کی تو وہ ایک بچے نے کی ۔اس کا نام صلاح الدین تھا۔اس نے ایک بوڑھےُ ترک سے کہا: ’’بابا اگر تم میرا ساتھ دو تو ہم مصر کے بادشاہ کے پاس جاتے ہیں۔ اسے اس حادثے کی خبر دیتے ہیں ۔ایک وہی ہے جو مسلمانوں کی مدد کر سکتا ہے۔ وہی ہماری ماؤں اور بہنوں کو رہا کر وا سکتا ہے۔‘‘
بوڑھےُ ترک نے کہا: ’’ میرے بیٹے میں دل و جان سے تمھارے ساتھ ہوں ۔بے شک سفر طویل اور خطرناک ہے مگر میں ضرورتمھارا ساتھ دوں گا۔‘‘
ننھے صلاح الدین نے اسی وقت سفر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور بوڑھےُ ترک کے ساتھ دار الحکومت ’موصل‘ شہر کی طرف چل دیا ۔
یہ شہر جہاں یہ واقعہ پیش آیادارالحکومت سے ۹۰ میل کے فاصلے پر تھا ۔جو کام بڑے بڑوں سے نہ ہو سکا وہ اس جواں ہمت بچے نے تن تنہا انجام دینے کا فیصلہ کر لیا اور ایک بوڑھےُ ترک کو بھی اپنا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا ۔
منزلوں پر منزلیں سر کرتے دونوں دن رات سفر کرتے رہے۔ بھوک وپیاس نے اِنھیں بار بار ستایا مگر روتی ہوئی عورتوں اور مردہ بچوں کے غم نے انہیں اس مشکل پر قابو پانے کا حوصلہ بخشا ۔وہ اپنے بادشاہ کو ظلم کی یہ ساری داستان سنانے اور ا س سے مدد لینے کے لیے بے چین تھے۔
ایک روز جب وہ چلتے چلتے تھک چکے ، اِنھیں اچانک ایک گھڑ سوار نظر آیا ۔وہ گھڑ سوار جب ان کے قریب آیا تو صلاح الدین کے آنسو بے اختیارنکل پڑے۔ گھڑ سوار نے باگیں کھینچ لیں اور ننھے صلاح الدین سے رونے کی وجہ دریافت کی ۔ بچے نے رو رو کر ساری داستان سنائی کہ کس طرح عیسائی دشمنوں نے مسلمانوں کے سارے گھر تباہ کر دیے اور عورتوں کو غلام بنالیا۔ گھڑ سوار نے حیرت اور غصے سے پوچھا: ’’اتنا بڑا حادثہ ہو گیا اور کسی نے کچھ بھی نہیں کیا؟‘‘
ننھا صلاح الدین بڑی ہمت والا اور بے باک بچہ تھا ۔ وہ بولا:’’جناب کسی اور نے کیا کرنا ۔ ہمارے بادشاہ ہی نے کچھ نہیں کیا ۔اسے تو اس کی خبر تک نہیں ہے کہ ہم پر کیا حالات بیتے ۔ہم اسی کے پاس یہ خبر لے جا رہے ہیں۔ دیکھیں بادشاہ کیا کرتا ہے۔‘‘
یہ سن کر گھڑ سوار چھلانگ لگا کر گھوڑے سے اُتر آیا۔ اس نے بچے کو اٹھا کر پیار کیااور بولا:’’ بیٹے وہ بدقسمت بادشاہ میں ہی ہوں جس کو یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس کے مسلمان بھائی بہنوں پر کیا ظلم ڈھایا گیا۔ آؤ اب ہم کچھ کرتے ہیں۔‘‘
یہ نیک دل بادشاہ نور الدین زنگی تھا۔ اس نے ان دونوں کو ساتھ لیا اور ’’موصل‘‘ میں اپنے قلعہ میں جا پہنچا۔ فوج کو جمع کیا اور ساری داستان بیان کرتے ہوئے کہا۔
’’کل نو رالدین زنگی کی تلوار ’’رہا‘‘ شہر پر چمکے گی ۔ بتاؤ تم میں سے کون کون میرا ساتھ دے گا۔‘‘
فوجی افسر خاموش تھے ۔’’موصل‘‘ سے ’’رہا‘‘ کا درمیانی فاصلہ۹۰ میل تھا ۔ اس قدر لمبے سفر اور تھکاوٹ کے ساتھ حملہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ سبھی یہی سوچ رہے تھے۔ اسی اثنا میں ایک آواز بلند ہوئی۔
’’اﷲ نے چاہا تو میں کل بادشاہ کے ساتھ ہوں گا۔‘‘
سبھی نے ہڑ بڑا کر آواز کی سمت دیکھا ۔وہاں ایک نو عمر اجنبی بچہ کھڑا تھا۔
’’ارے ! یہ بچہ ۔۔۔‘‘ کچھ آوازیں اُبھریں۔ ’’میاں تم جاؤ اور کھیلو۔ یہ جنگ ہے کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔‘‘
سلطان گرج کر بولا: ’’یہ بچہ سچ کہتا ہے۔ اس کی صورت بتاتی ہے کہ یہ اپنی بات کا سچا اور دُھن کا پکا ہے۔ اعتبار ایسے ہی لوگوں پر کیا جاتا ہے۔ تمھیں جانے نہ جانے کا اختیار ہے۔ ہم ان شاء اﷲ کل ’’رہا‘‘ کے دروازے پر ہوں گے۔‘‘
سلطان کی زبانی یہ بات سن کر سبھی فوجی افسروں نے حملے کی تیاری شروع کر دی۔ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو ظالموں کے نرغے سے چھڑانے کی جدوجہد میں اپنے قائد سے پیچھے بھلا کیسے رہ سکتے تھے۔
دوسرے روز اسلامی لشکر ’’رہا‘‘ کے دروازے پر دستک دے رہا تھا ۔سلطان اور اس کی فوج راتوں رات سفر کر کے یہاں آ پہنچی تھی ۔سبھی کے جسم تھکاوٹ سے چور تھے مگر حوصلے اور جذبات جوان اور توانا تھے ۔ جنگ شروع ہوئی تو اتفاق سے سلطان نور الدین زنگی کا سامنا عیسائیوں کے سپہ سالار سے ہوگیا ۔ سلطان نے اس پر پوری قوت سے تلوار کا وار کیا ۔ زرہ بکتر کی کئی کڑیاں تو ٹوٹ گئیں مگر وہ بچ گیا ۔ سلطان نے اب نیزہ سنبھال کر وار کرنا چاہا۔مگر اسی اثنا میں نو عمر صلاح الدین نے عین اس جگہ تلوار کا وار کیا جہاں سے کڑیاں ٹوٹ چکی تھیں۔سپہ سالار کا کام تمام ہوگیا ۔ عیسائی اپنے سپہ سالار کا انج
Leave a Reply