قاضی کا امتحان
شیخ ابوعکاس کی عمر انچاس سال تھی۔ اس کا تعلق ایک بہت قدیم خاندان سے تھا جس کا سلسلہ ابن خلدون سے جا ملتا ہے۔ ابوعکاس ہمیشہ فوجی لباس زیب تن کرتا تھا۔ سر پر سرخ صافہ رہتا تھا۔ کمر کے گرد بندھے چمڑے کے پٹے میں ہمیشہ ایک سیاہ رنگ کا خنجر اَڑسا رہتا تھا۔ وہ جب بھی کہیں جاتا تھا تو اس کے آگے حبشی غلام ہوتا تھا اور ساتھ ہی ایک پالتو شکاری کتا جس کی زنجیر غلام تھامے رکھتا تھا۔ وہ بارہ قبیلوں کا سردار تھا۔ جب بھی اسے کسی قبیلے میں واقعے کی اطلاع ملتی۔ وہ اپنے خاص خادم کو اپنی مخصوص چھڑی اور خنجر بطور نشانی دے کر روانہ کردیتا اور خادم یہ نشانیاں دکھا کر سردار کی طرف سے معاملات طے کر لیتا تھا۔
اگر کوئی شخص حج کے لیے جاتے ہوئے اس کی بستی سے گزرتا تو ابوعکاس کی جانب سے تین سو فرانک اسے تحفتاً پیش کیے جاتے۔ لیکن اگر کوئی شخص جھوٹا حاجی بن کر یہ رقم لیتے ہوئے پکڑا جاتا تو اسے بیس کوڑوں کی سزا ملتی تھی۔ شیخ کبھی کبھی بستی والوں کی دعوت بھی کرتا تھا جہاں وہ خود نہ کھاتا اور کبھی اگر کمانے پر بھی جاتا تو سب سے آخر میں کھاتا۔
جب شیخ ابوعکاس نے حکومت سنبھالی تھی اس وقت اس کے علاقے میں چوروں کی بہتات تھی۔ اس نے ان کو پکڑنے کی ایک تدبیر سوجھی۔ اس نے ایک تاجر کا بھیس بدلا اور نقد مال لے کر نکلا۔ چور مال ہتھیانے کے بہانے آتے اور شیخ کے قریب موجود ساتھی اسے گرفتار کرلیتے۔ کچھ ہی عرصے بعد اس کے علاقے میں مثالی امن و امان قائم ہو گیا۔ تب ہی یہ بات بھی مشہور ہو گئی کہ رات کو اگر کوئی بڑھیا بھی سونا اچھالتے ہوئے گزرے تو کسی چور کی اتنی ہمت نہ تھی کہ اسے چوری کرسکے۔
ایک دن شیخ کے مصاحبوں نے اسے خبر دی کہ اس کی بارہ بستیوں میں ایک بستی ایسی بھی ہے کہ جہاں ایک انصاف پسند قاضی کے فیصلوں کی بڑی دھوم ہے۔ شیخ نے سوچا کہ ذرا دیکھنا چاہیے کہ ان باتوں میں کتنی سچائی ہے اس نے ایک عام آدمی کا بھیس بدلا اور کسی ہتھیار کے بغیر ہی اس بستی کی جانب روانہ ہو گیا۔ جہاں وہ قاضی قیام پذیر تھا۔ وہاں سے بستی تین دن کی مسافت پر تھی جب وہ وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ بستی میں میلا لگا ہوا ہے اور وہیں پر اس قاضی نے اپنی عدالت لگا رکھی ہے۔ ابھی وہ عدالت کی جانب جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ایک مفلوج آدمی دیکھا جس کا پیر مفلوج تھا۔ وہ شخص ابوعکاس کو دیکھتے ہی مدد کے لیے صدا بلند کرنے لگا۔ ابوعکاس نے تھوڑی سی رقم اسے دی مگر اس شخص نے سردار کا پیر پکڑ لیا۔ میری ایک درخواست ہے۔ اس شخص نے مدد چاہنے والے لہجے میں کہا۔ ’’کہو!‘‘ شیخ نے مختصر سا جواب دیا۔
’’میں بستی کے اندر تک نہیں جاسکتا۔‘‘ اس نے اپنا مفلوج پیر دکھایا اور کہا ۔’’آپ مجھے بستی کے بازار تک پہنچا دیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ شیخ ابوعکاس نے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کسی طرح گھوڑے کی پشت پر بٹھا دیا۔ پھر وہ دونوں بستی کے اندر پہنچ گئے۔ جب بازار آگیا تو شیخ نے کہا :’’ ارے تم اُتر جاؤ۔ ‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے شخص نے پرسکون لہجے میں کہا۔ ’’میں نہیں اُتروں گا تم اُتر جاؤ۔‘‘
’’اچھا اچھا۔‘‘ شیخ نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔ ’’تم خود نہیں اُتر سکتے۔‘‘ جب شیخ نیچے اُترا تو گھوڑے سے اُترنے کے بجاے اس شخص نے کہا:’’ اب تم یہ گھوڑا بھی مجھے دے دو۔‘‘
’’ وہ کیوں؟ ‘‘شیخ نے حیرت سے پوچھا۔
’’کیونکہ یہ گھوڑا میرا ہے۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘ شیخ ہنسا۔ ’’اچھا مذاق کرتے ہو۔‘‘
’’تم غور سے میری بات سنو۔‘‘ اس شخص نے کہا ’’اور سمجھو بھی۔ تمھیں پتا ہے ناں کہ تم نہایت انصاف پسند قاضی کی بستی میں ہو؟‘‘
’’ہاں مجھے معلوم ہے۔‘‘ شیخ نے سر ہلایا۔
’’اگر میں گھوڑا نہ دوں تو تم مجھے اس کی عدالت میں گھسیٹو گے؟‘‘ اس نے پھر پوچھا۔
’’ظاہر ہے۔ ‘‘شیخ نے مختصر جواب دیا۔
’’اب سنو! جب قاضی ہم دونوں کو دیکھے گا تو یہ بھی دیکھے گا کہ تمھارے دونوں پیر سلامت ہیں جب کہ میں ایک پیر سے مفلوج ہوں۔ پھر وہ یہ بھی سوچے گا کہ ہم دونوں میں سے گھوڑے کی زیادہ ضرورت کسے ہے؟‘‘
’’یہ کوئی بات نہ ہوئی۔‘‘ شیخ نے کہا ۔’’اگر اس نے اس طرح فیصلہ دیا تو وہ قاضی کہلانے کے قابل نہیں۔ جب کہ لوگ اسے انصاف پسند قاضی کہتے ہیں۔‘‘
وہ شخص ہنسا اور بولا :’’مگر وہ لوگ اسے بے سقم قاضی نہیں کہتے۔‘‘
اسی وقت شیخ ابوعکاس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ بہترین موقع ہے۔ میں قاضی کی صلاحیتوں کی آزمائش کرسکتا ہوں۔ پھر اس نے بلند آواز میں کہا: ’’ٹھیک ہے۔ میں تمھیں قاضی کے سامنے پیش کروں گا۔‘‘ پھر وہ اسے عدالت کی جانب لے کر چلا۔وہ شخص گھوڑے پر بیٹھا رہا۔ اس وقت قاضی کے سامنے ایک مقدمہ پیش کیا گیا تھا جس کی سماعت جاری تھی۔ یہ مقدمہ ایک قسائی اور تیل فروش کے درمیان تھا۔ تیل فروش کے سارے جسم پر تیل کے دھبے پڑے ہوئے تھے اور اسی طرح قسائی کے جسم پر خون کے چھینٹے تھے۔ قاضی نے پہلے قسائی کو بولنے کے لیے کہا۔
قسائی نے کہنا شروع کیا۔
Leave a Reply