جس شان سے وہ رخصت ہوئی

اپنی اہلیہ، فرّخ سلطانہ سے متعلق بتاتا چلوں کہ کراچی میں جب سندھ کے پہلے ویمن تھانے کا افتتاح اُس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا، تو انہوں نے میری اہلیہ کو اس تھانے کی پہلی خاتون ایس ایچ او مقرر کیا۔ اس کی واحد وجہ اُن کی محکمہ پولیس میں بہترین کارکردگی تھی، جسے محترمہ بے نظیر بھٹو بھانپ گئی تھیں۔ فرّخ سلطانہ کی شبانہ روز محنت سے یہ تھانہ پوری آب و تاب سے کام یابی کے ساتھ چل رہا تھا۔

فرّخ کی ڈیوٹی اکثر وزیراعظم بے نظیربھٹو کے ساتھ لگا کرتی۔

پھر حکومت کے خاتمےکے بعد جب بے نظیر بھٹو کوگھر میں نظر بند کردیا گیا، تو فرّخ کی ڈیوٹی بھی ان کے ساتھ ہی لگادی گئی۔ ان ہی دنوں آصف زرداری کو بھی گرفتار کیا گیا، تو انہیں ویمن تھانے میں رکھا گیا۔ کسی کو اُن سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، مگر جب آدھی رات کو بے نظیر ان سے ملنے آئیں، تو فرّخ نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اُنہیں آصف زرداری سے ملنے کی اجازت دے دی۔ فرّخ سلطانہ نے اپنی گوناگوں صلاحیتوں سے صرف تھانے ہی میں نہیں، اپنی گھریلو زندگی میں بھی ہمیں ہر طرح کی خوشی اور آسودگی کا سامان مہیّا کررکھا تھا۔ اُن دنوں بھی شہر کراچی میں دہشت گردی عروج پر تھی، راہ زنی، چوری، بھتّہ خوری اور قتل و غارت گری سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی تھی۔

خاص طور پر ضلع وسطی دہشت گردوں کا مرکز تھا۔ رات تو کیا، دن میں بھی لوگ بے خوفی سے وہاں آنے جانے سےڈرنے لگے تھے۔ ہر طرف خوف کا عالم طاری رہتا، ایسے دور میں بھی فرّخ بلا خوف و خطر اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتیں۔ جس اسپتال میں بلاول زرداری کی پیدایش ہوئی، وہاں بھی فرّخ سلطانہ کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی اور بلاول کی پیدایش پر بی بی شہید کو پہلی مبارک باد فرّخ سلطانہ ہی نے دی تھی۔سیاست میں اتار چڑھائو آتے رہے، مگر فرّخ سلطانہ بلاخوف و خطر اسی محنت اور لگن سے اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ پھر وہ خوف ناک دَور آگیا، جب شہر میں خوف و ہراس پھیلانے اور انتقام لینے کی خاطر بے قصور لوگوں کو مارا جانے لگا۔ 24جون 1998ء کی صبح حسبِ معمول مَیں اور میری اہلیہ فرّخ سلطانہ کچھ وقفے سے اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر روانہ ہوئے۔ اُن دنوں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہورہے تھے اور میں انٹر بورڈ

کی جانب سے گڈاپ میں سی سی ڈی تھا،

ابھی ڈیوٹی پر پہنچا ہی تھا کہ گھر سے فون آگیا۔ فرّخ سلطانہ میری روانگی کے کچھ دیر بعد تھانے جانے کے لے نکلی تھیں، میں مطمئن تھا کہ وہ اب تک تھانے پہنچ چکی ہوںگی۔ مجھے فون پر اطلاع دی گئی کہ فوراً گھر پہنچیں۔ میں نے وجہ پوچھی، تو عجلت اور گھبراہٹ میں بتایا گیا ک ہ ’’آپ کی اہلیہ کو کسی نے گولی مار دی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا، میں اس وقت گھر سے تقریباً پچاس کلومیٹر دُور تھا، یہ فاصلہ کس طرح طے کر کے دیوانوں کی طرح گھر پہنچا، معلوم نہیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے یاد آیا کہ جس وقت میں گھر سے نکلا تھا، وہ لڑکا جو روزانہ میرے گھر کے سامنے بیٹھا رہتا تھا، مجھے وہاں نظر نہیں آیا تھا۔

تاہم، بعد میں پتا چلا کہ میری اہلیہ دفتر جانے کے لیے جیسے ہی گھر سے نکلیں، اس لڑکے نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ اُنہیں گھیر لیا اورپھر ماتھے پر گولی مار کےآناً فاناً شہید کردیا۔ میں جب گھر پہنچا، تو گیٹ سے قدرے فاصلے پر گلی میں لوگوں کا ہجوم دکھائی دیا، بھیڑ چیرتا ہوا وہاں پہنچا، تو سڑک پر ہر طرف خون ہی خون پھیلا ہوا تھا، پتا چلا کہ نعش گلی سے اٹھا کر عباس شہید اسپتال پہنچادی گئی ہے۔ گرتا پڑتا اسپتال پہنچا، وہاں فرّخ سلطانہ کی خون میں لت پت لاش دیکھ کر جیسےضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔مَیں بے اختیارپھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ میرے ساتھ محکمۂ پولیس کے اعلیٰ حکّام موجود تھے، ان سب نے غم کی اس گھڑی پر مجھے حوصلہ دیا۔ جنازے میں بھی سب شریک رہے۔ موت تو برحق ہے، مگر جس شان سے میری فرّخ رخصت ہوئیں، وہ اعزاز اور محبت قسمت والوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ وہ ایک سچّی، بے لوث، محبِ وطن، فرض شناس اور محنتی پولیس آفیسر تھیں۔ قدرت نے انہیں شہادت کے رُتبے پر فائز کردیا ۔

اگر اُن کی طبعی موت ہوتی، تو شاید انہیں یہ رتبہ اور اعزازت حاصل نہ ہوتے۔ واضح رہے کہ جس دن اُن دہشت گردوں نے فرّخ سلطانہ کو شہید کیا تھا، اُسی روز ان بدبختوں نے مزید اکتیس بے گناہوں کی جانیں بھی محض دہشت گردی کا خوف بٹھانے کے لیے لی تھیں۔ جن میں موسیٰ کالونی کے دو میاں بیوی اسکول ٹیچر بھی شامل تھے۔فرّخ سلطانہ کے سوئم پر بے نظیر صاحبہ میرے گھر تشریف لائیں، تو تعزیت کرتے ہوئے نَم آنکھوں سے مجھ بولیں ’’ فرّخ ایک محنتی اور فرض شناس افسر ہونے کے ساتھ میری بہنوں جیسی تھی، مَیں اپنی پارٹی اور اپنی طرف سے آپ کے اس دکھ میں برابر کی شریک ہوں۔‘‘ ان چند جملوں نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔ اخبارا اور ٹی وی چینلز میں کئی دنوں تک شہید، فرّخ سلطانہ کے خبریں چلتی رہیں۔

کئی اخبارات نے تو یہ تک لکھ دیا کہ’’ فرّخ شہید اور ویمن تھانہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اب یہ تھانہ نہیں چل پائے گا۔‘‘پھر ہوا بھی یہی، فرّخ کی شہادت کے بعد ویمن تھانے کی عمارت آرٹلری میدان تھانے کے حوالے کردی گئی۔ ایک بار میں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا تھا ’’ فرّخ ! تمہیں گھر اور تھانے میں کس سے زیادہ لگائو ہے۔‘‘ تو انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے بھرپور تیقّن سے کہا تھا ’’آپ کی اور گھر کی خدمت تو ہر عورت کی طرح میری فطرت میں شامل ہے، مگرمجھے ویمن تھانے سے ازحد پیار اور خصوصی لگائو ہے، مجھے دکھی اور پریشان حال لوگوں کی مدد کر کے اتنی خوشی حاصل ہوتی ہے کہ گھر کی تمام پریشانیاں بھی بھول جاتی ہوں۔

مَیں کسی بھی مشن کے لیے جدوجہد کرکے یا اس کی تکمیل کے بعد یہ محسوس کرتی ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دکھ درد دور کرنے کے لیے بھیجا گیا اوراس عظیم فرض کے مقابلے میں، گھر تو میرا بہت چھوٹا سا مشن ہے۔‘‘یہ تھے، میری پیاری اہلیہ کے خیالات، جنہیں انہوں نے عملی جامہ بھی پہنایا اور میں ان کی ہمّت اور بنی نوع انسان کی خدمت کے اس سچّے جذبے کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ محترمہ بے نظیر شہید سے ان کی محبت مثالی تھی اور دشمنوں نے دونوں ہی کو شہید کردیا۔ یوں تو دنیا فانی ہے، سب کو ایک نہ ایک دن جانا ہی ہے، مگر جس شان اور عزّت کے ساتھ یہ دونوں خواتین اس جہانِ فانی سے شہادت کے مرتبے پر فائز ہو کر رخصت ہوئیں، قدرت وہ درجات خوش نصیبوں ہی کو عطا کرتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *