پشاور سے لاہور تک
وہ انٹر کلاس کے زنانہ ڈبے سے نکلی‘ اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا اٹیچی کیس تھا۔ جاوید پشاور سے اُسے دیکھتا چلا آ رہا تھا۔ راولپنڈی کے اسٹیشن پر گاڑی کافی دیر ٹھہری تو وہ ساتھ والے زنانہ ڈبے کے پاس سے کئی مرتبہ گزرا۔ لڑکی حسین تھی‘ جاوید اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا‘ اس کی ناک کی پھننگ پر چھوٹا سا تل تھا‘
گالوں میں ننھے ننھے گڑھے تھے جو اس کے چہرے پر بہت بھلے لگتے تھے۔ راولپنڈی اسٹیشن پر اُس لڑکی نے کھانا منگوایا‘ بڑے اطمینان سے ایک ایک نوالہ اُٹھا
کر اپنے منہ میں ڈالتی رہی۔ جاوید دُور کھڑا یہ سب کچھ دیکھتا رہا‘ اُس کا جی چاہتا تھا کہ وہ بھی اُس کے ساتھ بیٹھ جائے اور دونوں مل کر کھانا کھائیں۔ وہ یقیناًاُس کے پاس پہنچ جاتا مگر مصیبت یہ تھی کہ ڈبہ زنانہ تھا۔ عورتوں سے بھرا ہوا‘ یہی وجہ ہے کہ جرأت نہ کر سکا۔لڑکی نے کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے جو بہت نازک تھے۔ لمبی لمبی مخروطی اُنگلیاں جن کو اس نے اچھی طرح صاف کیا اور اٹیچی کیس سے تولیہ نکال کر اپنے ہاتھ پونچھے‘ پھر اطمینان سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ جاوید گاڑی چلنے تک اُس کی طرف دیکھتا رہا۔
آخر اپنے ڈبے میں سوار ہو گیا اور اُسی لڑکی کے خیالوں میں غرق ہو گیا۔ معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ بڑے اچھے گھرانے کی ہے۔ دونوں کلائیوں میں قریب قریب بارہ بارہ سونے کی چوڑیاں ہوں گی۔ کانوں میں ٹاپس بھی تھے‘ دو انگلیوں میں‘ اگر میرا اندازہ غلط نہیں‘ ہیرے کی انگوٹھیاں ہیں‘ لباس بہت عمدہ‘ ساٹن کی شلوار‘ ٹفٹیا کی قمیص‘ شنون کا دوپٹہ۔ حیرت ہے کہ گھٹیا درجے میں کیوں سفر کر رہی ہے؟ پشاور سے آئی ہے وہاں کی عورتیں تو سخت پردہ کرتی ہیں لیکن یہ برقعے کے بغیر وہاں سے گاڑی میں سوار ہوئی اور اس کے ساتھ کوئی مرد بھی نہیں نہ کوئی عورت ‘ اکیلی سفر کر رہی ہے‘ آخر یہ قصہ کیا ہے ؟ میرا خیال ہے پشاور کی رہنے والی نہیں وہاں کسی عزیز سے ملنے گئی ہو گی مگر اکیلی کیوں ؟ کیا اسے ڈر نہیں لگا کہ اُٹھا کر لے جائے گا کوئی ایسے تنہا حسن پر تو ہر مرد جھپٹا مارنا چاہتا ہے۔ پھر جاوید کو ایک اندیشہ ہوا کہ شادی شدہ تو نہیں؟
وہ دراصل دل میں تہیہ کر چکا تھا کہ اس
لڑکی کا پیچھا کرے گا اور رومان لڑا کر اُس سے شادی کرے گا‘ وہ حرام کاری کا بالکل قائل نہیں تھا۔ کئی سٹیشن آئے اور گزر گئے اُسے صرف راولپنڈی تک جانا تھا کہ وہاں ہی اُس کا گھر تھا مگر وہ بہت آگے نکل گیا۔ ایک اسٹیشن پر چیکنگ ہوئی جس کے باعث اُسے جرمانہ ادا کرنا پڑا مگر اُس نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ ٹکٹ چیکر نے پوچھا ’’آپ کو کہاں تک جانا ہے‘‘جاوید مسکرایا ’’جی‘ ابھی تک معلوم نہیں آپ لاہور کا ٹکٹ بنا دیجیے کہ وہی آخری سٹیشن ہے‘‘ ٹکٹ چیکر نے اُسے لاہور کا ٹکٹ بنا دیا‘ روپے وصول کیے اور دوسرے سٹیشن پر اُتر گیا‘ جاوید بھی اُترا کہ ٹرین کو ٹائم ٹیبل کے مطابق پانچ منٹ ٹھہرنا تھا۔ ساتھ والے کمپارٹمنٹ کے پاس گیا‘ وہ لڑکی کھڑکی کے ساتھ لگی دانتوں میں خلال کر رہی تھی‘
جاوید کی طرف جب اُس نے دیکھا تو اس کے دل و دماغ میں چیونٹیاں دوڑنے لگیں‘ اُس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی موجودگی سے غافل نہیں ہے‘ سمجھ گئی ہے کہ وہ بار بار صرف اُسے ہی دیکھنے آتا ہے۔ جاوید کو دیکھ کر وہ مسکرائی‘ اس کا دل باغ باغ ہو گیا مگر جاوید فرط جذبات کی وجہ سے فوراً وہاں سے ہٹ کر اپنے ڈبے میں چلا گیا اور رومانوں کی دنیا کی سیر کرنے لگا اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کے آس پاس کی تمام چیزیں مسکرا رہی ہیں۔ ٹرین کا پنکھا مسکرا رہا ہے کھڑکی سے باہر تار کے کھمبے مسکرا رہے ہیں انجن کی سیٹی مسکرا رہی ہے‘ اور وہ بدصورت مسافر جو اُس کے ساتھ بیٹھا تھا‘ اُس کے موٹے موٹے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ ہے اس کے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں تھی لیکن اس کا دل مسکرا رہا تھا۔ اگلے اسٹیشن پر جب وہ ساتھ والے کمپارٹمنٹ کے پاس گیا تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا‘ کہاں چلی گئی ؟
کہیں پچھلے اسٹیشن پر تو نہیں اُتر گئی جہاں اُس نے ایک مسکراہٹ سے مجھے نوازا تھا؟ نہیں نہیں غسل خانے میں ہو گی۔ وہ واقعی غسل خانے ہی میں تھی۔ ایک منٹ کے بعد وہ کھڑکی میں نمودار ہوئی۔ جاوید کو دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ کے اشارے سے اُس کو بلایا۔ جاوید کانپتا لرزتا کھڑکی کے پاس پہنچا اُس لڑکی نے بڑی مہین اور سریلی آواز میں کہا ’’ایک تکلیف دینا چاہتی ہوں آپ کو ’’مجھے دو سیب لا دیجیے‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنا پرس نکالا اور ایک روپے کا نوٹ جاوید کی طرف بڑھا دیا۔ جاوید نے جو اس غیرمتوقع بلاوے سے قریب قریب برق زدہ تھا‘ ایک روپے کا نوٹ پکڑ لیا لیکن فوراً اُس کے ہوش و حواس برقرار ہو گئے۔ نوٹ واپس دے کر اُس نے اُس لڑکی سے کہا ’’آپ یہ رکھیے میں سیب لے آتا ہوں‘‘ اور پلیٹ فارم پر اُس ریڑھی کی طرف دوڑا جس میں پھل بیچے جاتے تھے‘
اُس نے جلدی جلدی چھ سیب خریدے کیونکہ وسل ہو چکی تھی۔ دوڑا دوڑا وہ اُس لڑکی کے پاس آیا‘ اُس کو سیب دیے اور کہا ’’معاف کیجیے گا وسل ہو رہی تھی اس لیے میں اچھے سیب چن نہ سکا ‘‘ لڑکی مسکرائی وہی دلفریب مسکراہٹ گاڑی حرکت میں آئی۔ جاوید اپنے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوتے کانپ رہا تھا لیکن بہت خوش تھا‘ اُس کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اُس کو دونوں جہان مل گئے ہیں‘ اُس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے محبت نہیں کی تھی‘ لیکن اب وہ اس کی لذّت سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔ اُس کی عمر پچیس برس کے قریب تھی‘ اُس نے سوچا کہ اتنی دیر میں کتنا خشک رہا ہوں۔ آج معلوم ہوا ہے کہ محبت انسان کو کتنی تروتازہ بنا دیتی ہے وہ سیب کھا رہی ہو گی لیکن اُس کے گال تو خود سیب ہیں‘ میں نے جو سیب اُس کو دیے ہیں کیا وہ اُن کو دیکھ کر شرمندہ نہیں ہوں گے۔ وہ میری محبت کے اشاروں کو سمجھ گئی جب ہی تو وہ مسکرائی اور اُس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بُلایا اور کہا کہ
میں اسے سیب لا دُوں۔ مجھ سے اگر وہ کہتی کہ گاڑی کا رخ پلٹ دُوں تو اُس کی خاطر یہ بھی کر دیتا۔ گو مجھ میں اتنی طاقت نہیں لیکن محبت میں آدمی بہت بڑے بڑے کام سرانجام دے سکتا ہے فرہاد نے شیریں کے لیے پہاڑ کاٹ کر نہر نہیں کھودی تھی؟ میں بھی کتنا بیوقوف ہوں اُس سے اور کچھ نہیں تو کم از کم یہی پوچھ لیا ہوتا کہ تمھیں کہاں تک جانا ہے خیر میں لاہور تک کا ٹکٹ تو بنوا چکا ہوں ہر اسٹیشن پر دیکھ لیا کروں گا۔ ویسے وہ اب مجھے بن بتائے جائے گی بھی نہیں شریف خاندان کی لڑکی ہے میرے جذبہ محبت نے اُسے کافی متاثر کیا ہے سیب کھا رہی ہے‘ کاش کہ میں اُس کے پاس بیٹھا ہوتا‘ ہم دونوں ایک سیب کو بیک وقت اپنے دانتوں سے کاٹتے اُس کا منہ میرے منہ سے کتنا قریب ہوتا۔ میں اس کے گھر کا پتہ لُوں گا ذرا اور باتیں کر لوں ‘ پھر راولپنڈی پہنچ کر امّی سے کہوں گا کہ میں نے ایک لڑکی دیکھ لی ہے اُس سے میری شادی کر دیجیئے ‘ وہ میری بات کبھی نہیں ٹالیں گی بس ایک دو مہینے کے اندر اندر شادی ہو جائے گی۔ اگلے سٹیشن پر جب جاوید اُسے دیکھنے گیا تو
وہ پانی پی رہی تھی‘ وہ جرأت کر کے آگے بڑھا اور اس سے مخاطب ہوا ’’آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیے‘‘ لڑکی مسکرائی دلفریب مسکراہٹ ’’مجھے سگریٹ لا دیجیے‘‘ جاوید نے بڑی حیرت سے پوچھا ’’آپ سگریٹ پیتی ہیں ‘‘ ’’وہ لڑکی پھر مسکرائی‘‘ جی نہیں یہاں ایک عورت ہے‘ پردہ دار‘ اُس کو سگریٹ پینے کی عادت ہے‘‘ ’’اوہ ! میں ابھی لایا کس برانڈ کے سگریٹ ہوں ؟‘‘ ’’میرا خیال ہے وہ گولڈ فلیگ پیتی ہے‘‘ ’میں ابھی حاضر کیے دیتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر جاوید اسٹال کی طرف دوڑا ‘ وہاں سے اُس نے دو پیکٹ لیے اور اُس لڑکی کے حوالے کر دیے‘ اُس نے شکریہ اُس عورت کی طرف سے ادا کیا جو سگریٹ پینے کی عادی تھی۔ جاوید اب اور بھی خوش تھا کہ اس لڑکی سے ایک اور ملاقات ہو گئی مگر اس بات کی بڑی الجھن تھی کہ وہ اس کا نام نہیں جانتا تھا‘ اُس نے کئی مرتبہ خود کو کوسا کہ اُس نے نام کیوں نہ پوچھا‘ اتنی باتیں ہوتی رہیں لیکن
وہ اُس سے اتنا بھی نہ کہہ سکا ’’آپ کا نام ؟‘‘ اُس نے ارادہ کر لیا کہ اگلے سٹیشن پر جب گاڑی ٹھہرے گی تو وہ اُس سے نام ضرور پوچھے گا اُسے یقین تھا کہ وہ فوراً بتا دے گی کیونکہ اس میں قباحت ہی کیا تھی۔ اگلا سٹیشن بہت دیر کے بعد آیا‘ اس لیے کہ فاصلہ بہت لمبا تھا۔ جاوید کو بہت کوفت ہو رہی تھی‘ اُس نے کئی مرتبہ ٹائم ٹیبل دیکھا‘ گھڑی بار بار دیکھی اُس کا جی چاہتا تھا کہ انجن کو پر لگ جائیں تاکہ وہ اُڑ کر جلدی اگلے اسٹیشن پر پہنچ جائے۔ گاڑی ایک دم رُک گئی‘ معلوم ہوا کہ انجن کے ساتھ ایک بھینس ٹکرا گئی ہے وہ اپنے کمپارٹمنٹ سے اُتر کر ساتھ والے ڈبے کے پاس پہنچا مگر
لڑکی اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھی۔ مسافروں نے مری کٹی ہوئی بھینس کو پٹڑی سے ہٹانے میں کافی دیر لگا دی۔ اتنے میں وہ لڑکی جو غالباً دوسری طرف تماشا دیکھنے میں مشغول تھی‘ آئی اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی‘ جاوید پر جب اُس کی نظر پڑی تو مسکرائی وہی دلفریب مسکراہٹ۔ جاوید کھڑکی کے پاس گیا ‘ مگر اس کا نام پوچھ نہ سکا۔ لڑکی نے اُس سے کہا ’’یہ بھینسیں کیوں گاڑی کے نیچے آ جاتی ہیں ؟‘‘ جاوید کو کوئی جواب نہ سوجھا ‘ گاڑی چلنے والی تھی‘ اس لیے وہ اپنے کمپارٹمنٹ میں چلا گیا۔ کئی اسٹیشن آئے مگر وہ نہ اُترا۔ آخر لاہور آ گیا‘ پلیٹ فارم پر جب گاڑی رُکی تو وہ جلدی جلدی باہر نکلا ‘ لڑکی موجود تھی‘ جاوید نے اپنا سامان نکلوایا اور اُس سے جس نے ہاتھ میں اٹیچی کیس پکڑا ہوا تھا‘ کہا
’’لائیے ! یہ اٹیچی کیس مجھے دے دیجیئے‘‘ اُس لڑکی نے اٹیچی کیس جاوید کے حوالے کر دیا۔ قلی نے جاوید کا سامان اٹھایا اور دونوں باہر نکلے ‘ تانگہ لیا۔ جاوید نے اُس سے پوچھا ’’آپ کو کہاں جانا ہے‘‘ لڑکی کے ہونٹوں پر وہی دلفریب مسکراہٹ پیدا ہوئی ’’جی ہیرا منڈی‘‘ جاوید بوکھلا سا گیا ’’کیا آپ وہاں رہتی ہیں ؟‘‘ لڑکی نے بڑی سادگی سے جواب دیا جی ہاں میرا مکان دیکھ لیں ‘ آج رات میرا مجرا سننے ضرور آئیے گا‘‘ جاوید پشاور سے لے کر لاہور تک اپنا مجرا سُن چکا تھا‘ اُس نے اس طوائف کو اُس کے گھر چھوڑا اور اس تانگے میں سیدھا لاریوں کے اڈے پہنچا اور راولپنڈی روانہ ہو گیا۔
۲۶، مئی ۵۴ءپشاور سے لاہور تک سعادت حسن منٹو
Leave a Reply