بانسری والا اور شہزادی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہزادی تھی جس کا نام شہزادی سلمیٰ تھا۔ شہزادی سلمیٰ نہایت لالچی اور مغرور تھی اور اسے کوئی کام بھی نہیں آتا تھا۔ ایک دفعہ کسی ملک کے بادشاہ نے اپنے بیٹے کے لئے شہزادی سلمیٰ کا رشتہ مانگا۔ شہزادی سلمیٰ کے والد نے ہاں کر دی اور اگلے روز شہزادہ اکبر اور اس کا باپ شہزادی کو دیکھنے آگئے ۔شہزادہ اکبر بہت خوبصورت تھا۔ بادشاہ نے شہزادی کو بلایا اور سب کچھ بتا یا تو شہزادی نے انکار کر دیا۔
اور کہا کہ میں اس لمبے بالوں والے سے شادی نہیں کروں گی۔ اسی وقت شہزادہ اکبر اور اس کا باپ غصہ میں آگئے اور فوراََ وہاں سے چلے گئے تو شہزادی سلمیٰ کے باپ کو غصہ آیا اور اس نے کہا کہ وہ شہزادی سے بات نہیں کرے گا۔ چند روز کے بعد ابھی بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ اسے بانسری کی آواز سنائی دی۔ اور اس نے کہا کہ بانسری والے کو لے آؤ بانسری والا آگیا۔ بانسری والے کو دیکھ کر بادشاہ نے شہزادی کو آواز دی شہزادی سلمیٰ آگئی بادشاہ نے کہا میں نے سوچ لیا ہے کہ تمہاری شادی اس بانسری والے سے کروں گا۔
شہزادی پریشان ہوگئی بادشاہ نے ایک بھی نہ مانی اور شادی بانسری والے سے کر دی بانسری والا شہزادی کو لے کر ایک باغ کی طرف چلا گیا وہ باغ بہت خوبصورت تھا شہزادی نے کہا یہ باغ کس کا ہے تو بانسری والے نے کہا باغ شہزادے اکبر کا ہے شہزادی بولی میں بھی کتنی احمق ہوں تو وہ بانسری والا آگے چل پڑا راستے میں جا کر بانسری والا بولا میں تھک گیا ہوں میرے لیے کھانا بناؤ تو شہزادی نے کہا مجھے کھانا بنانا نہیں آتا بانسری والا بولا چلو کچھ نہیں ہوتا تم کوئی اور کام کر لینا بانسری والا کچھ سامان لے آیا اور شہزادی سے کہا تم اس سے پاپڑ بناو اور بیچو مگر شہزادی نے کہا مجھے کوئی بھی کام نہیں آتا
اس نے کہا میں کچھ نہیں جانتا تم پاپڑ بناؤ گی اور شہزادی پاپڑ بنانے لگ گئی اور اسے تلنے لگی آخر کار اس کا ہاتھ جل گیا بانسری والا بولا تم کسی کام کی بھی نہیں ہو اور بولا تمہیں برتن لا کے دیتا ہوں وہ بیچنا اور کئی دنوں تک شہزادی برتن فروخت کرتی رہی ایک دن شہزادی برتن بیچ رہی تھی تو ایک آدمی گھوڑے پر آیا اور شہزادی کے برتنوں پر گھوڑا چڑھا دیا برتن ٹوٹ گئے اور شہزادی روتے ہوئے گھر چلی گئی بانسری والا بولا تم کسی کام کی نہیں ہو جاؤ کسی کے گھر نوکرانی بنو اور سب کام سیکھو۔شہزادی کسی کے گھر گئی اور جھاڑو پوچا کرنے لگی ایک دن شہزادی کو ڈھول کی آواز سنائی دی اور وہ اس آواز کی جانب چل پڑی کہ یہ وہی محل ہے جس میں وہ رہتی تھی اور اس نے دیکھا کہ سب خوش ہیں اس کی بہن خوش تھی جسکی آج شادی تھی شہزادی روئی اور بولی کہ کاش میں لالچ میں نہ آتی اور بڑے بالوں والے شہزادے کو نا نہ کرتی۔
اسی وقت وہ شہزادہ آ گیا اس نے کہا شہزادی سلمیٰ آپ نے مجھے یاد کیا شہزادی بولی میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں شہزادہ بولا ہم نے آپ کو غلطی کا احساس دلانا تھا میں وہی بانسری والا ہوں جس سے تم نے شادی کی تھی۔ شہزادی اسی وقت ہنس پڑی اور جس آدمی نے آپ کے برتنوں پر گھوڑا چڑھایا تھا وہ بھی میں ہی تھا۔ اب تم اپنی غلطی پر شرمندہ ہو مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔
پھر بادشاہ بولا اب تم دونوں کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہو گی اور وہ دونوں خوشی سے رہنے لگے۔۔
پیارے بچو۔۔۔۔ آپ سب کو پتہ ہے کہ لالچ بری بلا ہے۔ لالچی کسی نا کسی کنویں میں جا گرتا ہے اور آخرکار نقصان ہی اٹھاتا ہے ۔
Leave a Reply