میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں
انڈیا میں ایک بڑی عمر کے آدمی تھے۔ وہ فوت ہوگئے۔ کسی نے ان کو خواب میں دیکھاتو پوچھا: جی! آگے کیابنا؟ کہنے لگے: میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں۔ اس نے پوچھا: وجہ کیابنی؟ کہنے لگے: ایک مرتبہ ہندوؤں کی ہولی کا تھا اور وہ ایک دوسرے پر رنگ ڈالتے پھر رہے تھے، میں اپنے گھر سے کسی دوسری جگہ پر جا رہا تھا۔ راستے میں مجھے پان کھاتے ہوئے تھوک پھینکنے کی ضرورت محسوس ہوئی،اس وقت مجھے اپنے سامنے ایک گدھا نظر آیا، میری طبیعت میں کچھ ایسی بات پیداہوئی کہ میں نے یہ کہہ دیا: ارے گدھے! تجھے
کسی نے نہیں رنگا،آ! میں تجھے رنگ دیتاہوں، یہ کہہ کر میں نے اپنی پان والی تھوک گدھے پر پھینک دی، اللہ تعالیٰ نے میرے اس عمل پر پکڑ لیا کہ تم نے کافروں کے عمل کے ساتھ مشابہت اختیار کی، چنانچہ اس وجہ سے میری قبر کو جہنم کا گڑھا بنادیاگیا۔—ایک آدمی بہت روتا تھا، اس سے پوچھا: بھئی! تم اتنا کیوں روتے ہو؟ تو وہ کہنے لگا: ’’مجھے یہ بات سوچ کر رونا آتا ہے کہ میں نے جب گناہ کیا تو میں نے اپنے گناہ پر گوار اس پروردگار کو بنایا جو مجھے سزا دینے پر قدرت رکھتا ہے، اللہ نے سزا کو قیامت کے دن تک موخر کر دیا اور مجھےقیامت تک ملت دے دی کہ تم نے اگر رو دھو کے منانا ہو تو منا لو،اللہ کی قسم! اگر مجھے اختیار دیا جائے کہ دو باتوں میں سے تو کس بات کو اختیار کرتا ہے، ساری مخلوق کے سامنے تیرا حساب کریں اور پھر تجھے جنت میں بھیج دیں یا تجھے کہا جائے کہ تو مٹی ہو جا، تو میں قیامت کے دن مٹی بن جانے کو اختیار کروں گا۔‘‘یعنی میں نہیں چاہوں گا کہ میرا نامۂ اعمال ساری مخلوق کے سامنے کھولا جائے۔—ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ حج پر گئے ہوئے تھے ایک جگہ جا رہے تھے، ان کا تھیلا ان کے ہاتھ میں تھا ایک نوجوان آیا اور ان سے ان کا تھیلا چھینا اور بھاگ گیا ذرا آگے گیا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا
جیسےبینائی چلی گئی، اس نے رونا شروع کر دیا، لوگوں نے پوچھا: کیوں روتے ہو؟کہنے لگا: میں نے فلاں جگہ پر ایک بوڑھے میاں کا تھیلا چھینا ہے اور مجھے لگتا ہے وہ کوئی مقبول بندے تھے کہ میری بینائی چلی گئی، مجھے ان کے پاس لے چلو،میں ان سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔چنانچہ لوگ اس کو اس جگہ پر لے گئے، وہاں وہ بڑے میاں نہیں تھے، قریب ہی ایک حجام تھا، اس سے پوچھا تو کہا کہ وہ نماز پڑھنے آتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں، آپ اگلی نماز تک انتظار کریں، میں نشاندہی کر دوں گا۔اگلی نماز تک وہ بزرگ آ گئے، اس حجام نے ان کی نشاندہی کر دی، اب وہ نوجوان ان سے معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا: حضرت! آپ مجھے معاف کر دیں،مجھ سے غلطی ہو گئی،میں بڑا شرمندہ ہوں اور توبہ کرتا ہوں، اب وہ فرمانے لگے کہ میں نے تو آپ کو اسی وقت معاف کر دیا تھا، جب بار بار اس نے معافی مانگی اور بار بار انہوں نے کہا کہ میں نے تو اسی وقت آپ کو معاف کر دیا تھا تو لوگ بڑے حیران ہو گئے، کسی نے پوچھا: حضرت! اس نے آپ کا تھیلا چھینا اور آپ کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت معاف کر دیا تھا! وہ بزرگ کہنے لگے: ہاں مجھے ایک خیال آ گیا تھاجس کی وجہ سے میں نے معاف کر دیا تھا، پوچھا! کیا خیال آ گیا تھا؟اس نے کہا کہ میں نے علماء سے مسئلہ سنا ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری امت کو حساب کتاب کے لیے پیش کیا جائے گا جب تک پوری امت کا حساب و کتاب پورا نہ ہو جائے گا میں اس وقت تک جنت میں قدم نہیں رکھوں گا،میرے دل
میں خیال آیا کہ اس نے میرا تھیلا چھینا، اگر میں نے معاف نہ کیا تو قیامت کے دن میرا یہ مقدمہ پیش ہو گااور جتنی دیر اس مقدمے کے فیصلے میں لگے گی، میرے محبوبؐ کو جنت میں جانے میں اتنی دیر ہو جائے گی، میں نے معاف کر دیا کہ نہ مقدمہ پیش ہوگا اور نہ میرے محبوبؐ کوجنت میں جانے میں دیر لگے گی۔کاش! ہمیں بھی اس نسبت کا لحاظ ہوتا اور ہم بھی اپنے جھگڑے سمیٹ لیتے، ہم نے آج زندگی کے اندر کتنے معاملات کو بکھیرا ہوا ہے! ہم بھی اس نسبت کی لاج رکھیں یہ نسبت بڑی عجیب ہے
Leave a Reply