ہم اپنےبچپن میں اپنے محلے میں ایک بوڑھی عورت کو دیکھا کرتے تھے
پیر ذافقار صاحب نقشبندی ایک قصہ بیان کر تے ہیں ہم اپنے بچپن میں اپنے محلے میں ایک بوڑھی عورت کو دیکھا کرتے تھے وہ پاگل تھی بچے اس کو تنگ کرتے تھے کنکر مارتے تھے تو مجھے میری امی کہتی تھی کہ بیٹا اس کو کبھی تنگ نہ کر نا کبھی کنکر نہ ما ر نا میں چھوٹا بچہ تھا تو میں ہمیشہ کھڑے ہو کر اس کو دیکھا تھا یہ کیوں ایسے پاگل سی ہے دیوانی سی ہے جب بڑے ہوئے تو والدہ نے پھر اس کا قصہ سنا یا کہنے لگیں کہ یہ ہمارے محلے کی اچھے گھرانے کی خاتون تھی جوان عمر تھی اللہ نے اس کو بیٹا دیا۔ بیٹا بھی خوبصورت گھر کے کام میں لگی ہوئی تھی بچہ اپنی ماں سے بڑا اٹیچ تھا کچھ بچے ہوتے ہیں نہ کہ جن کو گود کا چسکا ہوتا ہے۔
کہ ہر وقت ماں ہی گود میں اٹھائے رکھے وہ بھی اسی قسم کا بچہ تھا اس عورت کو کوئی کام سمیٹنا تھا تو یہ اس بچے کو فیڈ ر دے کر لٹا کر گئی کہ اب تم لیٹ جا نا باہر مت آ نا مجھے کام سمیٹنا ہے اور بچہ فیڈر لے کر پھر باہر وہ تو معصوم بچہ تھا چھوٹا سا ماں اس کو پھر لے کر آئی اور کہا کہ تم مجھے بہت تنگ کر رہے ہو اب بالکل میرے پیچھے مت آنا بچہ پھر آگیا اب اس کو غصہ آ گیا اور غصہ کنٹرول نہ ہوا تو یہ بچے پر برسنے لگیں اس کو بہت سخت سست کہا میں تجھے سلا کر آئی تھی کیوں میرے پیچھے آگیا تنگ کر تا ہے تو سو یا سو ہی جا تا تو اچھا تھا جب اس نے یہ الفاظ کہہ دیے نا کہ تو تو سو یا سو ہی جا تا تو اچھا تھا اللہ کی پکڑ آ گئی مگر اللہ نے اس وقت اس کے بیٹے کو موت نہیں دی دعا قبول کر لی کہ یہ بد دعا تمہاری زبان سے نکلی نا بیٹے کے بارے میں غصے میں آکر اس کو تو قبول کر لیتے ہیں۔
ابھی اس کو موت نہیں دیتے۔ اب وہ بچہ بڑا ہوا لکھا پڑا وہ سکول کا سب سے انٹیلیجنٹ بچہ وہ کالج میں اسکالر شپ پانے والا بچہ جب وہ فائنل ماسٹر ڈگری کر کے آیا تو اس نے بزنس شروع کیا اتنا اچھا بزنس چلا اس کا کہ پورے شہر کے لوگ اس بچے کی مثالیں دیتے تھے۔ کہ دیکھو اتنے اچھے اخلاق والا تحمل مزاجی والا خوش مزاج اچھا بچہ اتنا اچھا اس کا بزنس ہے لوگ اس کی شکل دیکھتے تھے تو تمنا کرتے تھے کہ میری بیٹی کا رشتہ اس سے ہو جائے بہن کا رشتہ اس سے ہو جائے وہ ایسا نوجوان بچہ تھا۔ لوگ اپنے بیٹوں کو مثالیں دیتے تھے۔
کہ ایسا بننا اب ماں نے اپنے ہی رشتے داروں میں بہت خوبصورت بچی حور پری ڈھو نڈی پھر اس کے لیے بری تیاریاں کی جب سب چیزوں کی تیاریاں ہو گئیں اور شادی میں ابھی تین دن تھے اللہ کی شان کے بچہ اپنے ہی گھر میں چل رہا تھا فرش دھو یا تھا اور ابھی گیلا تھا پاؤں جو پھسلہ یہ نوجوان سر کے بل گرا اور اس کی موت آگئی اللہ نے پھل کو پکنے دیا جب پھل پک کر تیار ہو گیا۔ اب اللہ نے پھل کاٹا اب تجھے سمجھ لگے گی کہ تم نے میری کس نعمت کی نا قدری کی ہے ماں کے ذہن میں اتنا صدمہ اس کی موت کا ہوا کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھی وہ گلیوں کے اندر بس تنکے چنا کرتی تھی
Leave a Reply