بس کی سیٹ
بہت سال پہلے ہمارا ایک بیٹ مین بشیر ہوا کرتا تھا جو کہ سادگی میں اپنی مثال آپ تھا۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ہماری یونٹ ایک طویل جنگی مشق کے سلسلے میں کھاریاں کے قریب ایک علاقے میں موجود تھی۔ پاک فوج کے حاضر سروس افسر لیفٹنیننٹ کرنل ضیاء شہزاد اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔
دوران ایکسرسائز ہم نے ویک اینڈ پر گھر جانے کا پروگرام بنایا۔ بشیر سے کہا گیا کہ ہمارے لئے بس کی ایک سیٹ کا بندوبست کرے۔ اس نے یہ سن کر دوڑ لگائی اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ دو گھنٹے کے انتظار کے بعد ہانپتا کانپتا ایک طرف سے نمودار ہوا اور آتے ہی کہنے لگا کہ سر! کوئی بس والا بھی سیٹ دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے لڑائی جھگڑے کے بعد جا کر ملی ہے۔ ویک اینڈ پر عموماً رش کی وجہ سے ایسا ہوتا تھا جو
کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ ہم نے اسے شاباش دی اور تیار ہونے کے لئے ٹینٹ میں چلے گئے۔ کچھ دیر بعد باہر نکلے تو ہماری نگاہ سامنے موجود سچ مچ کی “سیٹ” پر پڑی جس کے ساتھ بشیر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر ہم نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیا۔ مت پوچھئے کہ اس روز گھر تک پہنچنے کے لئے ہمیں کتنا کٹھن سفر طے کرنا پڑا البتہ اس واقعے کے بعد ہم نے کسی سے بس کی سیٹ لانے کی فرمائش نہیں کی۔
Leave a Reply