گول گپے والا
چھ دن سے میرے کزن کی بیٹی ہسپتال میں داخل تھی۔ اسکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ پتہ چلا کہ چیختی ہے چلاتی ہے اور لوگوں کو کاٹتی ہے۔ مجھے پتہ چلا تو میں اسے دیکھنے ہسپتال گیا۔ بچی کی ٹانگیں اور ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور وہ تڑپ رہی تھی۔ بارہ سال کی بچی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے ملا تو بولے ہیسٹیریا ہے۔ باپ سے پوچھا تو کہنے لگے اس کو سایہ ہو گیا ہے۔ والدہ نے کہا اسکی پھوپھو نے جادو کر دیا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ میں نے بچی کے پاس جا کر اسے پیار کیا اور پانی پلایا۔ وہ بیقرار تھی۔ کہتی ہے مجھے گول گپے کھانے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے منع کیا ہے کہ اس کو کوئی چیز بازار سے نہیں دینی ہے۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے پوچھا کہ بچی کی یہ حالت کب سے ہے۔ والدہ نے بتایا کہ چھٹیوں کے آخری بیس ایام اپنے دادکوں کے گھر گئی تھی۔ وہاں سے جب واپس آئی ہے تو طبیعت ناساز ہے۔ چڑچڑی ہوگئی ہے۔ باہر نکل نکل کر بھاگتی ہے۔ بس کہتی ہے کہ گول گپے کھانے ہیں وہ بھی لا کر دئیے پر پسند نہیں آتے پھینک دیتی ہے۔ چیختی ہے چلاتی ہے۔ جوان ہے ایسی حرکتیں دیکھ کر کون اس سے شادی کرے گا۔ میں نے لڑکی سے تنہائی میں بات کرنے کی اجازت چاہی جو مل گئی۔
میں نے بچی کے ہاتھ پاؤں کھولے اور ٹیرس پر لے گیا۔ اسے پانی پلایا اور پوچھا کہ مجھے اپنا دوست سمجھو جو کچھ ہم میں بات ہوگی وہ راز ہی رہے گا۔ میں نے قسم کھائی۔ لڑکی کو کچھ حوصلہ ہوا تو کہنے لگی آپ اپنی ماں کی قسم کھائیں کہ کسی کو نہیں بتائیں گے۔ میں نے یہ قسم بھی اٹھا لی۔ ان کے محلے میں ایک گول گپے والا ہے جو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ہم دونوں وہ کھانے کے لئے جاتے تھے میں جب سے واپس لوٹی ہوں دل بہت بیقرار رہتا ہے اور جسم میں جیسے کچھ جل سا رہا ہے۔ میں نے اس سے اس کی پھوپھو کا نمبر لیا اور اس کو یقین دلایا کہ میں جو کچھ بھی کر سکا کروں گا۔
اگلے روز میں اس کی پھوپھو کے گھر تھا۔ رشتے دار تھے میری بہت عزت کی۔ میں نے اس کے بیٹے سے بازار تک ساتھ چلنے کو کہا اور ہم پیدل ہی شام کو گھر سے نکلے۔ باتوں باتوں میں میں نے لڑکی کے حوالے سے گول گپے کی تعریف کی اور یوں ہم اس دکان کے کیبن میں پہنچ گئے۔ گول گپے منگوائے گئے اور کھائے بھی ۔ بہت مزے دار تھے۔ الگ سا ذائقہ تھا۔ خیر میں نے کچھ پیک کروا لئیے اور ساتھ لے آیا۔ رات کو واپس شہر آیا اور وہ گول گپے ایک دوست کی لیب والے کو دیئے کہ اس کو چیک کردے۔ منشیات والے ادارے کو بھی ایک سیمپل دیا۔ اگلے روز کی رپورٹ میں پتہ چلا کہ مصالحہ جات میں ہیروئن ملائی گئی ہے۔ رپورٹ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ ایک لمحے کے لیے دم بند سا ہو گیا۔ اسی لمحے محکمہ انسداد منشیات کے ارادے سے رابطہ کیا اور اس گول گپے والے کی دکان پر ریڈ کیا۔ وہاں سے شراب، ہیروئن اور چرس برآمد ہوئی۔ یہ باقاعدہ ایک منشیات کا اڈہ تھا اور گول گپے والا اپنے گول گپوں میں گھول کر ہیروئن کھلا رہا تھا۔ جو لگ گئے وہ یہاں سے ہٹ نہیں سکتے تھے۔ ۔ ان کو پکڑا کر بچی کی طرف لوٹا اور ڈاکٹر صاحب کو اعتماد میں لے کر بچی کو ترک منشیات کے ادارے میں داخل کروا کر علاج کروایا۔ اس کی پھوپھو سے کھل کر بات کی اور بچے کو بھی علاج کے لیے بلوایا اور اس کا بھی علاج کروانے کے بعد میں نے دونوں گھرانوں کو آمنے سامنے بٹھایا اور ان سے سارا معاملہ کہ دیا۔ کچھ قسم تو ٹوٹی مگر اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لی اور کفارہ بھی ادا کیا مگر میری کوششیں سے وہ بچے منگنی کے بندھن میں بندھ گئے۔
یہ تو تھا واقعہ ۔۔ اب آئیں اصل مسئلے پر۔۔ اور وہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔ سکولوں کے باہر ریہڑیوں پر اور سکول کالجوں کی کینٹینوں پر محلے میں پھرتے ریہڑی اور چھابڑی والے خوانچے والے ہمارے بچوں کے ساتھ کیا کچھ کر رہے ہیں اسکا علم اکثر والدین کو ہے ہی نہیں۔ یہ لوگ اپنی چیز بیچنے کے لیے جو جو کچھ کر رہے ہیں اس کا عشر عشیر بھی ہمیں نہیں معلوم۔ ہمارے بچے اب نشوں پر لگ چکے ہیں۔ اور ہمیں معلوم ہی نہیں۔ ہم بحیثیت مجموعی اپنی اولادوں سے غافل ہیں۔
براہ کرم ان خوانچہ فروش مافیا سے ہمیں بچنا ہوگا۔ حکومت بیخبر ہے تو والدین اور اساتذہ کو جاگنا ہوگا۔ ان تک اپنے بچوں کو نہ جانے دیں۔ نشہ نہ بھی ہو تو ان کی گندگی ہی بہت ہے بچوں کی صحت تباہ کرنے کے لئے۔
یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں ان کو نشئی اور گمراہ ہونے سے بچا لیں۔ گول گپے والا تو گول گپے بیچ جائے گا مگر ہماری پوری نسل نشہ آور بن کر تباہ ہو جائے گی۔
جاگتے رہیئے ورنہ سب کچھ سو جائے گا۔۔
یا اللہ ہماری حفاظت فرما ان دشمنوں سے آمین۔“
منقول :
Leave a Reply