کسی پر بھروسہ نہ کریں
اکتوبر دو ہزار گیارہ کی ایک دوپہر تھی۔جب اچانک دروازے پر کسی نے گھنٹی بجائی سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔میں نے اپنے کمرے کا درازہ کھول کر باہر گلی میں دیکھا تو ایک عورت کھڑی ہوئی تھی پوچھنے پر پتہ چلا کہ کام والی ہے۔خیر گھر والوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتی ہے اس نے اپنا فرضی نام نجمہ بتایا اور کہا کہ
میں یہاں پاس ہی رہتی ہوں۔جب اس سے شناختی کارڈ مانگا تو کہنے لگی کہ آپ لوگ میرا کام دیکھ لیں اگر میرا کام پسند آگیا تو میں اپنا شناختی کارڈ بھی دے دوں گی۔خیر اس کو کام کے لئیے رکھ لیا۔اور اگلے دن سے اُس نے کام شروع کر دیا۔اور بڑے اچھے طریقے سے کام کرنے لگی حتیٰ کہ جاتے ہوئے برتن بھی دھو گئی۔میری والدہ اور بہنیں بہت خوش ہوئیں کہ چلو اچھی عورت مل گئی ہے کام والی۔ اگلے دن اکتوبر دو ہزار گیارہ کا آخری ہفتہ تھا۔ میں دوپہر کو باہر سے روٹیاں لے کر آیا اور گھنٹی بجائی تو دروازہ کام والی نے کھولا اور وہ بھی پوچھے بغیر۔
میں اندر آیا تو وہ بھی اندر آگئی اور پھر کچھ دیر بعد چلی گئی۔ اگلے دن اتوار تھا سب گھر میں تھے اُس دن کام والی کو کوئی خاص بے چینی سی ہو رہی تھی اور اس دن وہ کافی دیر کے بعد کام کر کے گئی۔اس کے جانے کے بعد میں نے گھر والوں سے کہا کہ کہ اس کام والی کہ نیت پر مجھے شک ہے ۔لیکن گھر والوں نے سنی ان سنی کر دی۔اگلے دن وہ کام کے لئیے جلدی آ گئی۔میرے ابو بینک چلے گئے اور بہنیں اُوپر چھت پر تھیں۔اور میں اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔کہ اچانک میرے دروازے پر کسی نے دستک دی میں نے سوتے ہوئے ہی پوچھا کہ
کون ہے تو ایک آدمی کی آواز تھی کہتا دروازہ کھولوں میں سی۔آئی۔ڈی سے ہوں آپ کے گھر طالبان آگئے ہیں پہلے تو میں حیران ہوا لیکن پھر میں نے دروازہ کھول دیا تو ایک آدمی پستول لے کر اندر آگیا اور مجھے نیچے لے گیا جہاں پہلے سے میرے گھر والوں کو ڈاکوؤں نے قید کیا ہوا تھا۔میں نے ادکاری شروع کر دی کہ مجھے کمر میں درد ہو رہا ہے۔لیکن میری امی نے مجھے چپ رہنے کا کہا۔ اور وہ لوگ سامان لوٹنے لگے۔کچھ دیر بعد گھنٹی بجی تو ایک ڈاکو میری بہن سے کہتا چلو تمھارے پاپا آگئے دروازہ کھولوں۔
خیر میرے ابو کو بھی وہ اندر لے آئے۔میں نے دوبارہ ڈاکوؤں کو تنگ کرنا شروع کر دیا تو دو ڈاکوں میرے پاس آگئے اور ایک نے میرا گلہ دبانے کی کوشش کی تو وہ چور چور کہنا شروع ہو گیا۔ میری امی نے بڑی مشکل سے مجھے ان سے بچایا۔ خیر وہ سامان لوٹ کر اور ہم کو کمرے میں بند کر کے چلے گئے۔میں نے کچن میں سے آواز دی تو ہمارے ساتھ والوں نے آ کر ہمیں دروازہ کھولا۔پولیس حسب روایت آئی اور کاروائی کر کے چلی گئی۔پتہ چلا کہ وہ کام والی ڈکیت والوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور اس نے ہی ڈاکہ ڈلوایا۔نتیجہ:اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کل کسی پر بھروسہ نہ کریں اور بغیر تحقیق کے کسی کو کام پر نہ رکھیں۔نہیں تو آپ لوگوں کو بھی نقصان ہو سکتا ہے
Leave a Reply