میری ہٹلر ماں
امی کو ہم لوگ پیٹھ پیچھے اُستاد رحیم داد ہٹلر کہا کرتے تھے۔جو ہمارے پرائمری اسکول کے اُستاد تھے۔ وہ پڑھانے سے پہلے ہی ہم پر ڈنڈا توڑ دیتے تھے۔ تاکہ ہم یکسو ہوکر پڑھیں۔ یکسوئی کے ساتھ پڑھتے پڑھتے اگر درد سے آنسو نکل آتے ۔تو پڑھائی کے فوراً بعد ایک اور ڈنڈا توڑ دیا جاتا۔کہ عورتوں کی طرح ٹسوے بہانا مردوں کو زیب نہیں دیتا۔
یہی دُرگت گھر میں والدہ حضور کے ہاتھوں بھی بنتی تھی۔ بڑا بھائی اگر بڑے ہونے کا فائدہ اُٹھاتا۔اور کوئی تھپڑ جڑ دیتا،یا پھر زبردستی ہمارے جیب خرچ پر ہاتھ صاف کرلیتا۔ تو مجبوراً امی سے شکایت کرنی پڑتی۔ نتیجتاً بڑے بھائی کو کسی کھوتے کی طرح مار پڑتی،اور ہمیں کسی کُتے کی طرح۔ میں حیران و پریشان رہ جاتا۔کہ ظالم کےساتھ مظلوم کو کیوں رگڑا گیا؟والدہ کہتی کہ کل خدا کو کیا منہ دکھاؤں گی۔کہ ایک بیٹا پٹتا رہا اور دوسرا ہنستا رہا؟اماں کی اسی مُنصف مزاجی نے ہم دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کی شکایت لگانے سے باز رکھا۔چُغلی جیسے گُناہِ عظیم سے بچے رہے۔اور سمجھوتہ کرکے اپنے مسائل باہمی گُفت و شنید سے خود ہی حل کرتے رہے۔
ہماری چھوٹی چاچی کےساتھ اماں کی اَن بن چل رہی تھی۔ لہٰذا ہمیں سختی سے تاکید کر دی گئی۔کہ اس کے بیٹے کے عقیقے میں ہر گز نہیں جانا ہے۔ میں سات سال کا بچہ کب تک خود کو روک پاتا۔ ایک ہی گھر میں چچازاد کے عقیقے کے بکرے نظرانداز کرسکتا تھا۔ بے دھیانی میں چلا گیا اور کھانا بھی کھا کر آگیا۔اماں کو پتہ چلا،تو چارپائی کے ساتھ باندھ کر میرے پیروں کے تلوؤں پر پتلی شاخ سے اتنا مارا۔کہ دو دن تک چلنے پھرنے سے معذور رہا۔پس اس واقعے سے یہ سبق حاصل کرلیا،کہ اماں کے دُشمن ہمارے بھی دُشمن رہیں گے۔چاہے خون کا رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ہمیں دشمن کا نمک بھی نہیں کھانا چاہیئے۔فقط خون پینا چاہیئے۔ اگلے ہفتے چاچی کےساتھ امی کی صُلح ہوگئی۔ چاچی ہماری بڑے والے کمرے میں آگئی۔ اماں کا سکھایا ہوا سبق یاد آیا،تو ہم نے نفرت سے مُنہ پھیرلیا۔چاچی کو سلام تک نہیں کیا۔اور اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔ یاد رہے ہمارے پشتونوں میں ایسے چھوٹوں کےلئے ایک بہت بُرا لفظ ہے۔
چاچی کے جانے کے بعد اماں نے ہمارے مُنہ پر تھپڑوں کی بارش شروع کردی۔کہ کیا یہی میری تربیت ہے،کہ بڑوں کو سلام نہیں کرتے؟
لوگ کیا کہیں گے؟کہ شمیم بیگم نے اپنی اولاد کی یہ تربیت کی ہے؟
ہم حیران و پریشان کہ اماں ہمیں کیا بنانے پر تُلی ہوئی ہیں۔مگر آج کامیاب شادی شدہ زندگی کا شاید یہی حل ہے۔کہ حکمران کے ہر جائز نا جائز کو سہتے ہوئے چُپ کرکے صرف سر جُھکانا ہوتا ہے۔
گاؤں میں ایک شریر لڑکا تھا۔ نام تو اُس کا صادق تھا۔ مگر اپنے نام کے برعکس وہ ایک نمبر کا کذاب تھا۔ ساتھ ساتھ انتہائی اذیت پسند بھی تھا۔ پورا گاؤں اُس سے بیزار تھا۔ کبھی کسی کی مرغی کو مار دیتا اور کبھی گاؤں کے واحد کنوئیں میں بلی پھینک دیتا۔ ایک دن مُجھے بھی کرکٹ کے بیٹ سے مارا اور میرا سر خُونم خون ہوگیا۔ اسی حالت میں گھر آیا تو پہلے تو اماں دہل کے رہ گئی۔مگر اگلے ہی لمحے مجھ پر تھپڑوں کی بارش شروع ہوگئی۔کہ عورتوں کی طرح مار کھا کر آئے ہو۔ مرد ایسے ہوتے ہیں؟ کاش تیری جگہ کسی لڑکی کو جنم دے دیتی تو کل کو کسی کا گھر تو آباد کردیتی۔ مُجھے بھی واقعی شرمندگی ہوئی۔
بالاخر ایک دن صادق کو میں نے جالیا۔ تنہاء پاکر میں نے اس کی بہترین ٹُکائی کی۔ اس کی والدہ چیختے چلاتے اماں کے پاس آئی۔اور اپنے بیٹے کے پھٹے ہونٹ اور خون سے رنگین سر دکھاکر بولی۔کہ آپ کے بیٹے نے میرے بیٹے کی کیا حالت بنائی ہے۔ اماں نے سب کے سامنے مُجھےاتنا مارا،کہ میں زمین پر گر گیا۔ کہ ایک انسان اتنا ظالم کیسے ہوسکتا ہے؟۔
یہی سہتے سہتے بڑے ہوگئے۔ کالج گئے تو وہی ڈنڈا۔ یونیورسٹی میں وہی مُنہ پر چمانٹوں کی سُرخیاں۔ ماسکو سے پڑھ کر آگئے،مگر اماں کی گالیوں اور کوسنوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ مونچھوں میں سفیدی آگئی۔ اماں اب 65 سال کی ہوگئ ہیں۔کمزور بھی ہوگئی ہیں۔پچھلے دنوں بیوی بچوں کے ساتھ گاؤں چھٹیوں پر آیا ہوا تھا۔ اماں کی کمزوری مُجھ سے دیکھی نہیں جارہی تھی۔ ہر وقت بستر پر پڑی رہتیں۔ اماں کی یہ حالت مجھے مارے ڈال رہی تھی۔ اماں میری اولاد کے ساتھ ہر وقت کھیلتی رہتی۔ نہال اور میشال تو اماں کی قمیض اُٹھا کر اس کے پیٹ سے کھیلتے رہتے۔ مگر وہ ہنستی رہتی۔ اماں کی سختی اس کا غصہ سب کچھ وقت کےساتھ کہیں بہہ گیا تھا۔اماں واقعی کمزور ہوگئی تھیں۔میری آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے۔ کیونکہ ماں کو بچپن سے ہمیشہ ایک مضبوط اور ایک لڑاکو کمانڈر کی طرح زندگی گزارتے دیکھا تھا۔ آج اماں کی حالت ایک شکست خوردہ سپاہی کی طرح ہوگئی تھی ۔جیسے ہلاکو خان تلوار اور گھوڑے کی پیٹھ کو خدا حافظ کہہ کر مُبلغ بن جائے۔
یک لخت میں اپنی جگہ سے اُٹھا اور نہال کی طرف لپکا۔ نہال کے مُنہ پر ایک زور کا تھپڑ جڑ دیا۔کہ تمہیں جُرآت کیسے ہوئی کہ میری ماں کےساتھ بدتمیزی کر سکو۔کیا تمہاری ماں نے تیری یہ تربیت کی ہے؟
اچانک میری پیٹھ پر جیسے کسی نے انگارے رکھ دیئے ہوں۔ میری سانس بند ہوگئی۔ والدہ حضور نے اپنی لاٹھی اُٹھا کر اس زور سے مارا۔کہ عارف خٹک تیس سال پہلے کی دنیا میں پُہنچ گیا۔ میں نے اپنا سر اتنا جُھکا لیا کہ اماں کو تھپڑ مارنے میں آسانی ہو۔اور اماں کے تھپڑ میرے منہ کو لال کرنے لگیں۔بُہت عرصہ بعد آج میں پہلی بار خوشی خوشی پٹنے لگا۔
میرے بچے پریشان کہ ابا کو مار پڑ رہی ہے۔ بیوی چُپکے سے ہنس رہی تھی۔ اماں کمزور ہوگئی تھیں،مگر تھپڑ کی طاقت وہی کی وہی تھی۔ میری آنکھوں سے دو آنسو کہیں چُپکے سے گر گئے۔اور میں اپنی ماں سے لپٹ گیا۔ اور بولا،اماں جان آج مُجھے کہنے دیجیئے،کہ میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔ اور زندگی میں پہلی بار میں نے اپنی ماں کو یوں دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا۔“
عارف خٹک
Leave a Reply