عقل مند کسان

بھارت میں حیدر آباد دکن سے سات میل دور کولگندہ نامی ایک شہر ہے،جہاں ایک کسان اپنے کھیتوں میں بیچ بو رہا تھا۔صبح کا وقت تھا۔ علاقے کا نواب سیر کرتا ہوا وہاں سے گزرا۔کسان کو محنت سے کام کرتے ہوئے دیکھ کر نواب نے سوچا کہ کسان سے اس کی خیریت دریافت کرنی چاہیے۔

وہ گھوڑے سے اُترا اور کھیت کے کنارے پہنچ کر کسان سے پوچھا:”کیوں بھائی!کھیتی باڑی میں تم اس قدر محنت کرتے ہو،کتنا کچھ کما لیتے ہو؟کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے یا نہیں؟“کسان نے سر اُٹھایا اور نواب سے کہا:”فائدہ کیا جناب!فصل کٹنے کے بعد اس کے چار حصے کر لیتا ہوں۔واب نے پھر پوچھا:”اچھا تو ان چاروں حصوں کو خرچ کیسے کرتے ہو؟“کسان نے جواب دیا:”ایک حصہ تو حکومت کے ٹیکس میں چلا جاتا ہے۔

دوسرا حصہ قرض چکانے میں ختم ہو جاتاہے۔تیسرا حصہ اُدھار دیتا ہوں اور باقی چوتھا حصہ یوں ہی لُٹا دیتا ہوں۔ “

نواب کو کسان کی یہ عجیب و غریب باتیں سن کر بہت تعجب ہوا۔حیرت سے پوچھا:”تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں۔صاف صاف بتاؤ،تم قرض چکاتے بھی ہو اور دیتے بھی ہو۔ایسا کون سا قرض ہے جو ہر فصل پر ادا کرتے ہو اور پھر بھی ختم نہیں ہوتا اور وہ کون ہے،جسے تم ہمیشہ قرض دیتے ہو اور پھر ایک چوتھائی رقم تم یوں ہی اُڑا دیتے ہو؟“

کسان نے جواب دیا:”جناب!بات دراصل یہ ہے کہ میرے والد نے ایک ساہو کار سے رقم اُدھار لی تھی۔

والد کے مرنے کے بعد اس کا سود میں ادا کرتا ہوں۔ایک حصہ ٹیکس دینے کے دوسرا حصہ یہ ادا ہو جاتا ہے۔

”اور تیسرا حصہ کسے اُدھار دیتے ہو؟“نواب نے پوچھا۔

کسان نے کہا:”یہ میں اپنے دو لڑکوں پر خرچ کرتا ہوں،تاکہ بڑھاپے میں وہ مجھ پر خرچ کریں۔

نواب نے پوچھا:”اور یہ ایک حصہ فضول کیوں اُڑا دیتے ہو؟“

کسان نے کہا:”میری ایک لڑکی بھی ہے۔آپ کو پتا ہے کہ آج کل جہیز کے بنا شادی نہیں ہوتی اور جہیز ایک فضول رسم ہے۔چوتھا حصہ اس کے جہیز کے لئے رکھتا ہوں۔میری نظر میں یہ رقم لٹانا ہی ہوا۔“

نواب اس کی مدلل گفتگو سے بہت متاثر ہوا اور ایک بڑی رقم اسے انعام کے طور پر دے کر رخصت ہو گیا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *