مہمان بے زبان ہوتا ہے
ایک قریبی شہر پہلی بار جانا ہوا‘ لاری اڈے اترا تو اندازہ نہیں تھا کس طرف جانا ہے‘ پاکستانی طریقہ استعمال کرتے ہوئے رکشے والے سے پوچھا فلاں جگہ جانا ہے‘ اس نے کہا سو روپے میں مطلوبہ جگہ چھوڑ آو¿ں گا‘ میں بہت جلدی میں تھا‘ اس لیے اس شرط پر فوری رکشے میں سوار ہوگیا کہ وہ کسی اور سواری کا انتظار نہیں کرے گا رکشے والا کافی زندہ دل شخص ثابت ہوا یا شاید ان کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے
وہ سارے رستے دلچسپ علاقائی قصے کہانیاں سناتا رہا، جہاں مجھے جانے کی اتنی جلدی تھی وہیں اس کی دلچسپ باتیںسن کر جی چاہ رہا تھا کہ سفر جلدی ختم ہی نا ہو‘ بہرحال مختلف لمبی لمبی سڑکیں اور گلیاں گھومتے ہوئے منزل مقصود پہنچا‘ اسے بخوشی سو کا نوٹ دیا اور شکریہ ادا کرکے نیچے اتر گیا۔
وہاں مجھے اپنا ضروری کام نبٹانے میں تین سے چار گھنٹے لگے واپسی پر ایک دوست مجھے لاری اڈے ڈراپ کرنے کے لیے ساتھ چل پڑا مگر اس نے بائیک یا گاڑی باہر نہیں نکالی‘ میں حیران ہوا کہ یہ کیسا سی آف کرنا ہے کہ پیدل رکشے تک چھوڑنے جا رہا ہے جبکہ بائیک اور گاڑی بھی موجود ہے‘ مہمان چونکہ بے زبان ہوتا ہے اس لیے میں خاموشیسے ساتھ چلتا رہا۔ہم باتیں کرتے ہوئے گلی سے باہر نکلے‘ مین سڑک پر آتے ہی بائیں ہاتھ کی سڑک مڑے ہی تھے بالکل سامنے وہی لاری اڈا دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے چڑیا مینا سب اڑ گئے۔
تب سمجھ آیا کہ وہ رکشے والا درحقیقت مجھے ارد گرد سے بے خبر رکھنے کے لیے اتنے قصے کہانیاںسنا رہا تھا لیکن مہمان چونکہ بے زبان ہوتا ہے اس میں میں خاموش رہااوراپنے عزیز سے اس واقعے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
Leave a Reply