شوھر بیوی کے سامنے 62 سال تک گونگا بنا رہا

گلوب نیوز!شوہر اپنی بیوی کی باتیں سننے سے بچنے کے لیے 62 سال گونگا بہرہ ہونے کی اداکاری کرتا رہا، بیوی نے پتہ چلتے ہی علیحدگی اختار کر لی۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ واٹربری سے تعلق رکھنے والے شخص کو اس وقت بیوی سے علحیدگی کا سامنا کرنا پڑا

جب بیوی کو یہ معلوم ہوا کہ اس کا شوہر گونگا بہرہ نہیں ہے بلکہ کئی برسوں سے وہ ایسی اداکاری کر رہا تھا کہ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا اور نہ ہی وہ بول سکتا ہے۔ طلاق کے کاغذات میں لکھا گیا ہے کہ 84سالہ بیری ڈاونسن اور 80 سالہ ڈوریتی کی شادی کو 60 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا تاہم اس تمام عرصے میں وہ اپنی بیوی کے سامنے ایک لفظ بھی نہ بولا، ڈوریتی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے شوہر سے مخاطب ہونے کے لیے اشاروں سے بات کرنے والی زبان کو بھی سیکھا لیکن اس کے باوجود بھی ان کے شوہر اتنی بات نہیں کرتے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہاتھوں کے اشارے سے گفتگو سیکھنے میں مجھے 2 سال لگے۔

اور جب میں نے اس میں مہارت حاصل کر لی تو میرے شوہر نے آنکھوں سے دکھائی نہ دینے کی اداکاری شروع کر دی لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ میرے شوہر نے باقی جھوٹوں کے ساتھ یہ بھی جھوٹ بولا۔خاتون کا کہنا تھا کہ جب میرا شوہر گھر پر ہوتا تھا تو ہمیشہ ایسے ہی رہتا جیسے وہ واقعی میں گونگا بہرہ ہو۔

لیکن مجھے حقیقت کا تب علم ہوا جب میں نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں اپنے شوہر کو ایک بار کے اندر گانا گاتے ہوئے پایا تب مجھے تمام صورتحال کا اندازہ ہوا۔ مسٹر ڈیوسن کے وکیل رابرٹ سنچیز نے اپنے موکل کے گونگا ہونے کی اداکاری کا اعتراف کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس نے یہ سب اپنی بیوی کے لیے کیا

کیونکہ پریشان کن وجوہات سے بچنے کا یہ ایک واحد طریقہ تھا۔وکیل نے مزید کہا کہ میرے موکل کی نیت اپنی بیوی کو دھوکہ دینے کی نہیں تھی بلکہ حقیقت میں وہ واقعی کم گو ہے اور زیادہ بات چیت کرنے کا عادی نہیں ہے لیکن اس کی بیوی بہت زیادہ باتونی ہے۔

اگر اس نے گونگا ہونے کی اداکاری نہ کی ہوتی تو دونوں کے مابین 60 سال قبل ہی طلاقہو چکی ہوتی۔

میرے موکل نے یہ سب اپنی بیوی اور اہل خانہ کے لیے کیا۔جب کہ خاتون نے کئی سال تک دھوکہ دینے اور جذباتی کشیدگی کی وجہ سے اپنے شوہر سے مالی معاوضے کا مطالبہ بھی کیا ہے جب کہ تاحیات ہونے والے اخراجات کا نصف ادا کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *