عورت بڑی عجیب چیز ہوتی ہے وہ ایک غلطی کرجاتی ہے او راپنا وجود اپنے من پسند کو تھمادیتی ہے پھر وہ چاہے تو ؟؟؟
جس سے آپ کو محبت ہو اس کی خاطر ایسی چیزیں چھوڑ دینا جن سے آپ کو محبت ہو، یہ بھی ایک محبت ہے۔ دنیا کی ساری کامیابیاں سمیٹنے کے بعد بھی مرد اپنی من پسند عورت کے قدموں میں اپنی شکست تسلیم کرلیتا ہے۔ کبھی کبھی انسان کو اپنے مخلص ہو کرچلنے پربھی رونا آجاتاہے۔ عورت بڑی عجیب چیز ہوتی ہے سالہاسال کی محنت سے اپنی ذات کو بنتی ہے
محبت سے ایک ایک ٹانکا بھر کر رنگ برنگے دھاگے لگا کر اپنی اخلاق وکردار کی تشکیل کرتی ہے۔ اور جب مکمل ہوجاتی ہے تو ایک غلطی کرجاتی ہے۔ گرہ لگانا بھول جاتی ہے۔ یا شاید جان بوجھ کر دھاگے کا سرا کھلا چھوڑ دیتی ہے اور پھر ایک دن وہ سرا کسی من چاہے کو تھما دیتی ہے۔ اب وہ چاہے تو اسے خود کے ساتھ باندھ کر فنا ہونے سے بچا لے اور چاہے تو اس کے وجود کو تار تار کردے۔ محبت کرنے والے بدعائیں نہیں دیتے کیونکہ جس دل میں محبت رہتی ہے وہاں بدعائیں نہیں رہتیں ۔ وقت مٹی ڈال دیتا ہے یادوں پر، ماضی پر، آرزو پر ،غلطیوں پر ، چاہتوں پر یہاں تک کہ رشتوں پر بھی بانو قدسیہ کہتی ہیں وہ ہاتھ بہت انمول ہوتے ہیں جو آپ کچھ سنبھال لیں جب آپ ٹوٹ کر بکھر رہے ہوتے ہیں۔ صبر کرو اپنی کہانی کے لیے کیاپتہ تمہاری کہانی کے باقی حصے بہترین ہوں اس حصے سے ہوسکتا ہ ے تمہاری کہانی اوروں سے الگ ہو بالکل الگ۔ مرد کو بچپن سے سیکھایا جاتا ہے کہ روتے نہیں آج ایک عورت روتے ہوئے بولی کاش ان کو یہ بھی سیکھایا جاتا کہ رولاتے بھی نہیں ہیں۔ اپنی آمدنی میں گزارہ کیجیے ۔ کسی سے اپنا موازنہ مت کیجیے۔ سادہ کھا لیجیے۔ سستا پہن لیجیے۔ خوشی او ر سکون ملے گا۔ جب تک آپ کے ہاتھ میں پیسا ہوتا ہے تو آپ صرف خود کو بھول جاتے لیکن جب آپ کے ہاتھ پیسا نہیں ہوتا تو پوری دنیا بھول جاتی ہے کہ آپ کون ہیں؟ اشفاق احمد کہتے ہیں خوشی ایسے میسر نہیں آتی کہ کسی فقیر کو دو چار آنے دے دئیے۔ خوشی تب ملتی ہے جب آپ اپنی خوشیوں کے وقت سے وقت نکال کر انہیں دیتے ہیں ۔ جو دکھی ہوتے ہیں اور کل کو آپ کو ان دکھی لوگوں سے کوئی دنیاوی مطلب بھی نہیں ہوتا۔ فاصلوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب یادیں خوشگوار ہوتو اچھے لوگ دل کی دھڑکن کی طرح ہوتے ہیں جو ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ لوگوں کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ آپ خوش ہوتے ہیں یا نہیں انہیں فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ آپ انہیں خوش رکھتے ہیں یا نہیں۔
Leave a Reply