عورت ایک پھول کی طرح ہے جس کو توڑے بغیر بھی تسکین حاصل کی جاسکتی ہے

ہمارا تعلق ایسا معاشرے سے ہے جہاں اختلاف رکھو تو بد تمیزی سچ بولوتو بے ادبی ارو کچھ نہ بولو تو منافقت ہوجاتی ہے۔ عورت کی زبان لمبی ہے سب یہ تو کہتے ہیں لیکن مرد کی زبان گند ی ہے ۔ یہ کوئی نہیں کہتا ،جومرد عورت کو گالی سے چپ کروائے اورجو عورت خاوند کے آگے زبان چلائے ایسے جوڑوں کو تربیت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

منٹو کہتے ہیں حسین سے حسین عورت بیوی بننے کے بعد ناگن کا روپ دھا رلیتی ہے۔ خود کا مقابلہ کسی نہ کرو ۔ تم جیسے ہو بہترین ہو۔ زندگی کا تجربہ تو نہیں ، مگر اتنا معلوم ہے کہ چھوٹا آدمی بڑے موقع پر کام آجاتا ہے اور بڑا آدمی چھوٹی سی بات پر اکثر اپنی اوقات دکھا جاتاہے۔ بعض مرتبہ آنکھوں دیکھا بھی غلط ہوتا ہے لہذا کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے سے پہلے اچھی طرح چھان بین کرلیں کہیں ایسا نہ ہو بعد میں آپ کی سو چ آپ کو شرمندگی سے دوچار کرے۔ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا بھی فرق نہیں ہوتا۔ عورت ایک پھول کی طرح ہے جس کو توڑے بغیر بھی تسکین حاصل کی جاسکتی ہے۔

ہرانسان کو اس کے ماضی کے کسی ایک واقعے نے اتنا بدل دیا ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی ویسا نہیں بن سکتا ۔ جیسا وہ اس واقع سے پہلا تھا۔ الفا ظ بھی انسان کے لباس کی طر ح ہوتے ہیں۔ جب ادا ہوتے ہیں تو انسان کی شخصیت کا عکس واضح ہوجاتا ہے۔ کبھی دکھ سے تڑپتے مرد کی سرخ انگاروں سے دہکتی آنکھوں میں ضرور جھانکنا اور دیکھنا مرد دکھ میں کتنا تنہاء ہوتا ہے۔

کبھی کبھی ہماری اپنی پسند ہمیں چیخ چیخ کررونے پر مجبو ر کردیتی ہے۔ ایک شخص جو کتوں کی دوڑ کے مقابلے کا انعقاد کرواتا تھا ایک دفعہ اس نے مقابلے ایک چیتے کو شامل کیا لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جب مقابلہ شروع ہوا تو چیتا اپنی جگہ سے نہ ہلا اور کتے اپنی پوری قوت کے ساتھ مقابلہ جیتنے کی کوشش کررہے تھا۔ چیتا خاموشی سے دیکھ رہا تھا ۔

جب مالک سے پوچھا گیا کہ چیتے نے مقابلے میں شرکت کیوں نہیں کی ۔ مالک نے دلچسپ جواب دیا : کبھی کبھی خود کو بہترین ثابت کرنا دراصل اپنی ہی توہین ہوتی ہے ہر جگہ خود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بعض لوگوں کے سامنے خاموش رہنا ہی بہترین جواب ہوتا ہے۔ کتوں کے ساتھ کتے دوڑتے ہیں شیر اور چیتے نہیں۔ جوشیلا اندا ز اور ہاتھو ں کی کرتب سکھا کر تقریری مقابلے کروانے سے بہتر ہے کہ نئی نسل کو دھیمے لہجے میں مضبوط دلائل کے ساتھ گفتگو کرنے کا سلیقہ سکھایاجائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *