آج مجھے اپنی زندگی کی پہلی کمائی ملنے والی تھی تنخواہ ایک ساتھ ملی اور ساتھ چھٹی بھی مل گئی

آج مجھے اپنی زندگی کی پہلی کمائی ملنے والی تھی۔ تین ماہ کی تنخواہ ایک ساتھ ملی اور ساتھ چھٹی بھی مل گئی۔ گھر پہنچا تو عید کا سماں تھا۔ ماں باپ بہن بھائی سب بہت خوش تھے۔ میں نے ساری رقم والدہ کے ہاتھ پر رکھ دی۔ والدہ نے رقم کا تیسرا حصہ راہ خدا میں خرچ کرنے کی نیت سے علیحدہ کیا اور کہا کہ اس رقم سے ایک بیوہ عورت کے گھر راشن خرید کر پہنچا دینا جو دور کے ایک محلے میں رہتی تھی۔ میں اسی وقت گیا اور راشن خرید کر لایا۔ گھر میں میرے لئے پر تکلف طعام کا انتظام کیا گیا تھا۔ بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر لذیذ کھانوں کے مزے اڑائے اور سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے رضائی میں گ۔ھس گیا۔

آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں کہ اچانک اس بیوہ عورت اور اسکے یتیم بچوں کا خیال آیا۔ ارادہ کیا کہ ابھی جاؤں اور سامان پہنچا آؤں, طبیعت میں سستی تھی سوچا کل پہنچا دوں گا۔ لیکن بعد میں خیال آیا میں تو پر تکلف کھانے کا مزا لے چکا کہیں وہ بچے بھوکے نہ ہوں۔ اسی وقت لحاف سے نکلا, ایک چادر اوڑھی, تھیلا کاندھے پر رکھا اور اسکے گھر کی طرف نک۔ل پ۔ڑا۔ سردی تھی, دھن۔د بھی زیادہ تھی اور بھ۔اری تھیلا اٹھانے میں بھی کچھ دقت ہو رہی تھی۔ ایک دور محلے میں اس عورت کا گھر تھا۔ اسکا شوہر مزدوری کرتا تھا اور چار بچے تھے۔ اسکے یتیم بچوں پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ کبھی ایسے لوگوں کو ل۔پیٹ میں لے لیتی ہے جنکا خدا کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔خیالات کا اک سمندر لئے اس بیوہ عورت کے گھر کے باہر پہنچا۔ گھر کیا تھا بلکہ ایک خرابہ تھا۔ ایک کمرہ, چھوٹا سا صحن اور ایک خمیدہ سی چار دیواری تھی۔ دروازہ ک۔ھٹک۔ھٹایا تو ایک 5 سالہ بچی باہر آئی۔ جسکے چہرے پر پ۔ریشانی, خ۔وف اور بھ۔وک نمایاں تھی۔ میں اسکے چہرے کو تکے جا رہا تھا۔

اور دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ خدا کسی بچے پر ایسا وقت نہ لائے۔ اس بچی نے ایک پرانا سا جوڑا پہنا ہوا تھا اور ایک سردی میں ایک پھ۔ٹی پرانی جرسی پہنی ہوئی تھی ۔ اس سردی میں کہ پیروں کو جما کہ رکھ دے۔ میں نے کچھ کہے سنے بغیر راشن والا تھیلا زمین پر رکھا۔ تھیلے کو دیکھتے ہی وہ بولی, کیا اس میں کھانے کا سامان ہے؟ یہ سننا تھا کہ میں حیران ہو گیا۔ ایک بار پھر اس نے یہی سوال دہرایا۔ میں نے مثبت انداز میں سر ہلایا۔ وہ بچی خوشی سئ ماں کہ طرف بھاگی اور یہ کہے جا رہی تھی “امی فرشتہ آگیا, امی فرشتہ آگیا, امی فرشتہ آگیا ” اور پھر دو اور چھوٹے چھوٹے بچے خوشی سے دروازے پر دوڑے چلے آئے۔ کبھی مجھے دیکھتے کبھی اس تھیلے کو اور خوشی سے ل۔وٹ پ۔وٹ ہوئے جا رہے تھے۔

میری آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے, ہونٹ ک۔پک۔پا رہے تھے اور جسم میں ایک سرد لہر سی دوڑ رہی تھی۔ خدایا یہ کیا ماجرا ہے؟ کیوں یہ بچے مجھ گ۔ن اہگار کو فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ انہی سوچوں میں غلط۔ان تھا کہ ایک خاتون جو انکی ماں تھی دروازے پر آئی اور دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوکر کہنے لگی۔ میرے بچے دو دن سے بھوکے تھے۔ غیرت گوارا نہیں کرتی کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤں۔ میرے م۔رحوم شوہر بھی محنت مزدوری کرتے تھے مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا۔ ان کے چلے جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ رشتہ داروں نے ہاتھ ک۔ھینچ لئے ہیں اور محلے والے بھی مدد نہیں کرتے۔ مگر کبھی کبھی آپ جیسے نیک دل لوگ مدد کر دیتے ہیں۔ میں دو دن سے بچوں کو یہ کہہ کر بہلا رہی تھی

کہ ایک فرشتہ آئے گا اور ہمارے لئے کھانا لے آۓ گا۔ اسی لئے یہ آپ کو فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس عورت نے خدا کے حضور شکرانے کے چند کلمات ادا کئے, مجھے دعائیں دیں اور شکریہ ادا کیا۔میں وہاں سے واپس ہو لیا, آن سو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ زندگی میں کبھی خود کو اتنا پرسکون محسوس نہیں کیا جتنا آج کر رہا تھا۔ اور اندازہ لگایا کہ ایک بے بس انسان کی مدد کرنے سے جو روحانی سکون ملتا ہے وہ کسی اور کام میں نہیں۔ ہمارے اردگرد ایسے بہت سے غربا ہوتے ہیں جو مستحق ہونے کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ مگر مدد کرنے والے ہاتھوں کے منتظر ضرور رہتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی ہی ان کا کل جہاں ہوا کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے چاہے وہ ایک وقت کھانا ہی کیوں نہ ہو۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *