کوفہ میں ایک خوبصورت نوجوان ہر وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہتا

حضرت احمد بن سعید رحمتہ اللہ علیہ اپنے والد محترم سے نقل کرتے ہیں۔ ایک گاؤں میں ایک عبادت گزار خوبصورت اور نیک سیرت نوجوان رہتا تھا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت مسجد میں گزارتا اور ہر وقت یاد الہی میں مشغول رہتا۔ ایک مرتبہ ایک حسین و جمیل اور عقل مند عورت نے اس کو دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی اس پر عاشق ہو گئ۔ اور اس کے خیال میں گم رہنے لگی۔

بلآ خر جب محبت شدت اختیار کر گئی۔ تو وہ راستے میں کھڑی ہوگئی۔ کچھ دیر کے بعد وہ نوجوان مسجد کی طرف جاتا دکھائی دیا۔وہ اس کی طرف لپکی اور کہا نوجوان میں تجھ سے ایک بات کرنا چاہتی ہوں میری بات سن لو پھر جو چاہے کرنا۔ اس شرم و حیا کے پیکر نوجوان نے جب ایک غیر محرم عورت کی آواز سنی تو اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ اور نگاہیں جھکائے تیزی سے مسجد کی طرف بڑھ گیا۔ جب مسجد سے گھر کی طرف آنے لگا تو وہی عورت ملی اور کہنے لگی اے نوجوان میری بات سن میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ نوجوان نے نگاہیں جھکائے جواب دیا یہ تہمت کی جگہ ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھ پر تہمت لگائیں۔ عورت نے کہا واللہ میں تیری حالت سے اچھی طرح خبردار ہوں لیکن میں اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ میں خوب جانتی ہوں۔ اتنا معمولی سا تعلق بھی لوگوں کے نزدیک بہت بڑا ہے۔

تو جیسے نیک خصلت اور پاکیزہ لوگ آئینے کی طرح ہوتے ہیں۔ چھوٹی سی غلطی بھی ان کو داغ دار بنا دیتی ہے لیکن میں کیا کروں میں بے بس ہوں میرے دل کا حال یہ ہے کہ ہر وقت تیری یاد میں تڑپتا ہے اور میرے جسم کے تمام اعضاء تیری ہی طرف متوجہ ہیں۔ نوجوان اس کی بات سن کر کچھ کہہ بغیر اپنے گھر کی جانب چلا گیا۔گھر جا کر اس نے نماز پڑھنا چاہی لیکن اسے خشوع و خضوع حاصل نہ ہو سکا۔ بالآخراس نے ایک خط لکھا۔ اور باہر آیا تو دیکھا کہ وہ عورت اسی جگہ کھڑی ہے۔ نوجوان نے جلدی سے خط اس کی طرف پھینکا اور واپس چلا گیا۔ عورت نے خط اٹھایا اور بے تاب ہو کر پڑھنے لگی۔ خط میں لکھا تھا اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اے عورت یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لے کہ بندہ جب اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ پاک اس کو درگزر فرماتا ہے۔ جب دوبارہ گناہ کرتا ہے تو اللہ پاک اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے لیکن جب بندہ اتنا نافر ہو جاتا ہے۔ کہ گناہوں کو اپنا اڑنا بچھونا بنا لیتا ہے تو اللہ پاک اس سے سخت ناراض ہو جاتا ہے۔ اور اللہ کی ناراضگی کو زمین و آسمان, پہاڑ شجر و حجر کوئی بھی چیز برداشت نہیں کر سکتی پھر کس میں ہمت ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کا سامنا کرے۔

اے عورت اگر تو اپنے بیان میں جھوٹی ہے میں تجھے وہ دن یاد دلاتا ہوں جس دن آسمان پگھل جائے گا۔ اور پہاڑ روئی کی طرح ہو جائیں گے۔ اور تمام مخلوق اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی۔ اللہ کی قسم میں اپنی اصلاح میں کمزور ہوں۔ پھر بھلا میں دوسروں کی اصلاح کیسے کر سکتا ہوں؟اگر تو اپنی باتوں میں سچی ہے اور واقعی تیری کیفیت وہی ہے جو تو نے بیان کی۔ تو میں تجھے ایک ایسے طبیب کا پتہ بتاتا ہوں جو ان دلوں کا بہترین علاج جانتا ہے۔ جو مرض عشق کی وجہ سے زخمی ہوگئے ہوں اور ان زخموں کا علاج کرنا خوب جانتا ہے۔ جو رنج و غم کی بیماری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جان لے وہ طبیب حقیقی اللہ ہے۔ تو سچی طلب کے ساتھ اس کی بارگاہ میں ہو جا۔ بے شک میں اللہ کے اس فرمان عالی شان کی وجہ سے تجھ سے تعلق نہیں رکھنا چاہتا جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔ اور انہیں ڈرا اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آ جائیں گے۔ غم بھرے اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے۔ اللہ جانتا ہے چوری چھپے کی نگاہ اور جو کچھ سینوں میں چھپا ہے۔ اے عورت جب یہ معاملہ ہے تو خود سوچ لے کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ اور فرار کیوں کر ممکن ہے؟ عورت نے خط پڑھ کر اپنے پاس رکھ لیا۔ کچھ دن بعد پھر اسی راستے پر کھڑی ہوگئی۔ جب نوجوان کی نظر اس پر پڑی تو وہ واپس گھر کی طرف جانے لگا۔عورت نے پکار کر کہا اے نوجوان واپس نہ جا۔ اس ملاقات کے بعد پھر کبھی ہماری ملاقات نہیں ہوگی سوائے اس کے کہ بروز قیامت اللہ کی بارگاہ میں ہماری ملاقات ہو۔ اتنا کہہ کر وہ زور زور سے رونے لگی اور روتے روتے کہنے لگی۔ جس پاک پرور کار کے دست قدرت میں تیرے دل کے اختیارات ہیں میں اسی سے سوال کرتی ہوں

کہ تیرے بارے میں مجھ پر جو معاملہ مشکل ہو گیا ہے وہ اسے آسان فرما دے۔ پھر وہ عورت نوجوان کے قریب آئی اور بولی مجھ پر احسان کر۔ اور کوئی ایسی نصیحت کر جس پر میں عمل کر سکوں۔ نوجوان نے سر جھکائے نظریں نیچے کیے جواب دیا۔ خود کو اپنے نفس سے بعض رکھ نفس کی خواہشات سے بچ میں تجھے اللہ کا یہ فرمان یاد دلاتا ہوں۔ اور وہی ہے جو رات کو روحیں قبض کرتا ہے۔ اور جانتا ہے جو کچھ دن میں کماؤ۔ یہ آیات کریمہ سن کر عورت نے اپنا سر جھکایا اور پہلے سے بھی زیادہ زور زور سے رونے لگی۔ کچھ برباد دیکھا تو نوجوان جا چکا تھا۔ وہ عورت اپنے گھر چلی آئی اور پھر عبادت و ریاضت کو اپنا مشغلہ بنا لیا۔ ہر وقت یاد الہی میں مشہود رہنے لگی۔جب بھی یاد آتی اس کا حق منگوا کر آنکھوں سے لگا لیتی۔ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا تجھے اس طرح کرنے سے کیا ملتا ہے؟ وہ کہنے لگی میں کیا کروں یا میرے لیے اس کے علاوہ کوئی علاج ہے۔ وہ دن بھر یاد الہی میں مصروف رہتی۔ جب رات ہوتی تو نوافل ادا کرتی اور بلآخر اسی طرح عبادت و ریاضت کرتے کرتے اس جہان فانی سے رخصت ہوگئی۔ میرے محترم عزیز دوستوں ایک لمحے کے لیے آپ خود کو اس نوجوان کی جگہ رکھ کر سوچیے اگر آپ اس نوجوان کی جگہ ہوتے کیا کرتے۔

اس دوران آپ کے ذہن میں جو پہلا خیال آئے گا بس وہی آپ کے ایمان کی گہرائی ہے کہ آپ کے ایمان کا درجہ کیا ہے؟ اگر میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر تو شاید نوے فیصد ہم لوگ اس گناہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس کا دارومدار ہمارے ایمان پر ہے۔ اور ہمارے ایمان کا آج کل کے دور میں کیا درجہ ہے؟ سب جانتے ہیں۔ اور کیا ہی عظیم لوگ تھے وہ جو کہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے تھے۔ شیطانی چالاکیوں اور شیطانی وار کو رحمانی طاقت سے شکست جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ وہ نوجوان شیطان کے چال میں نہیں پھنسا بلکہ شیطان کی چال کو رحمانی طاقت سے شکست دے کر ایک بدکار عورت کو اللہ کے راستے پر ڈال دیا۔ایک گناہ گار عورت کی زندگی کا نقشہ ہی بدل دیا۔ صرف اس لیے کہ اس کا ایمان اللہ پر تھا۔ اس نے نہ صرف خود کو گناہ سے بچا لیا بلکہ ایک بھٹکی عورت کی زندگی کو اللہ کے راستے پر ڈال دیا۔ اللہ میری آپ کی اور ہم سب کی زندگی کو ایمان کی طاقت عطا فرمائے۔ اللہ پاک ہمارے سینوں کو اپنی محبت سے بھر دے۔ اور ہمیں شیطان کے فریب سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *